برس سے ٹی وی پر بچھی دینی بساط کا حاصل یہی ہے کہ ایسے لوگ اسلامی رہنما سمجھ لئے گئے ہیں ، جن کا دینی علم کسی بھی مسلمہ معیار پر پورا نہیں اُترتا، نہ ہی وہ کسی دینی درسگاہ کے تعلیم یافتہ ہیں اورنہ ہی سند یافتہ! اور اس پر مستزاد ان کی وضع قطع جو ایک طرف خود ان کے دینی رویوں کی آئینہ دار ہے اور دوسری طرف ان کے پیش کردہ دین کا ایک عملی نقشہ بھی کھینچے دیتی ہے۔ مقالہ نگار کے اس استدلال میں بھی وزن ہے کہ ٹی وی کا ماحول بالکل مختلف ہے جبکہ دین کی تبلیغ کے تقاضے اس سے بالکل جداگانہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ آج ٹی وی پر دینی رہنمائی کا منصب سنبھال چکے ہیں ، اُنہیں اُس منبر و محراب میں درس اورخطبہ جمعہ وغیرہ دینے کی توفیق بھی خال خال میسر آتی ہے، جو اس دین کے رہبر و رہنما سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی مسند ِعلم وارشاد ہے۔ فاضل مضمون کے بہت سے استدلال چشم کشا حتی کہ عبرت آموز بھی ہیں ، البتہ بعض اُصولی باتوں کی نشاندہی اور ان پر اپنے تاثرات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے : ٭ فی زمانہ اجتماعیات کے میدان میں وہ تصورات ورجحانات بالکل ناپید ہیں جن کو شریعت ِمطہرہ نے متعارف کرایا ہے۔ یہ میدان سیاست کا ہویا تعلیم وتعلّم کا ، عدل وانصاف کا ہویا معیشت ومعاشرت کا؛ ان کے اَساسات ومعمولات کا خلافِ اسلام ہونا کسی بھی گہری نظر والے صاحب ِعلم سے مخفی نہیں ہے، لیکن اس وقت اُمہ کو درپیش اہم ترین مسئلہ جہاں یہ ہے کہ اُنہیں اسلام کے خالص نظریات سے متعارف رکھا جائے، ان کی تعلیم دی جائے؛ وہاں یہ بھی ہے کہ عالمی جبر وسامراج کے بل بوتے پر جاری وساری ان کفریہ نظام ہائے زندگی کے ساتھ عملی رویہ کیا اختیار کیا جائے؟ یہ بہت اہم اورعملی نوعیت کا سوال ہے، کیونکہ ان نظامہاے کفر کو جڑ سے اُکھاڑنے کی منزل بظاہر دور نظر آتی ہے۔ بالفاظِ دیگر کسی نظام کا مبنی بر غلط ہونا، ایک حقیقی، نظری اور علمی امر ہے، لیکن اس غلط نظام سے مسلمانوں کا سلوک وبرتاؤ ایک بالکل عملی مسئلہ ہے۔ جمہوریت کفر ہے اوروضعی قانون پر فیصلے بالکل ناممکن، یہ تو بجا … لیکن عالمی وعلاقائی جبر کے بل بوتے پر جاری ان نظاموں سے مسلمان کیا رویہ اختیار کریں ، دورِ زوال کی حکمت ِعملی کیا ہوکہ اسلام کا اصل جوہر واِمتیاز ہی نسیاً منسیا ہو کر نہ رہ جائے اور دوسری طرف لوگوں کے لئے زندگی گزارنا بھی ممکن رہے۔ یہ اس دور |