4. روزنامہ ’امت‘ کراچی کا تبصرہ بعنوان ’مستحسن اقدام‘ …تحقیق کی فضا گرچہ بھارت میں سازگار ہے مگر پاکستان بھی یکسر محروم نہیں ۔ کچھ نوجوان اس میدان میں کودے ہیں اور اُنہوں نے فتویٰ پرستی کے ماحول میں خود کو ضائع کرنے کے بجائے تحقیق و جستجو اور تفقہ فی الدین کو حرزِ جان بنایا ہے۔ اُنہیں میں سے ایک حافظ حسن مدنی بھی ہیں ۔’محدث‘ کے نام سے ایک علمی اور معیاری ماہنامہ ان کی زیر ادارت نکلتا ہے، جس پر کسی مسلک کا رنگ غالب نہیں ، خود ان کے اپنے مسلک کابھی نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسائلِ زمانہ کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں اور تحقیق کی کھٹال میں کوٹ کوٹ کر ان مسائل کا علاج تلاش کرتے ہیں ۔ کبھی ثقافت کے نام پر کثافت ان کو کھلتی ہے تو کبھی دین کے نام پر لادینیت پھیلانے والے جعلی دانشوروں پر وہ گرفت کرتے ہیں ۔ ان دونوں تصویر اورویڈیو کا مسئلہ ایک اختلافی معاملہ بنا ہوا ہے۔ بعض مکاتب ِفکر اس سلسلے میں ایک انتہا پر ہیں تو بعض دوسری طرف۔ اس سلسلے میں مثبت کوشش یہ ہوئی کہ لاہور میں تمام مکاتب ِفکر کے نمائندے مگر جید علماء ومفتیانِ کرام کا ایک اجلاس مفتی محمد خان قادری کی درس گاہ جامعہ اسلامیہ میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں خالصتاً علمی انداز میں تصویر، ویڈیو کے مسئلے کا جائزہ لیا گیا اور آخر میں تمام مکاتب ِفکر کے علماء نے ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی جس کو اجلاس کا حاصل قرار دیا جا سکتا ہے۔ لاہور کے اس اجلاس میں علماے کرام کے سامنے دو نکات تھے: 1. تصویر، فوٹوگرافی اور ویڈیو کی شرعی حیثیت 2. دورِ حاضر میں تبلیغی ضروریات کے لئے تصویر، ٹی وی اور ریڈیو کا جواز علماء نے ان دونوں نکات پر بھرپور تیاری کی۔ قرآن و حدیث سے استدلال پیش کیا اوراپنے اپنے موقف کی وضاحت کی، مگر حسن یہ ہے کہ اپنے موقف پر جامد رہنے کے بجائے صورتِ حال کو سمجھانے اور دوسروں کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس مذاکرے میں جہاں ایک نکتہ نظر یہ تھا کہ تصویر ہر حال اور ہر حیثیت میں حرام ہے تو دوسرے کاموقف تھا کہ صرف شرک اور فحش مقاصد میں استعمال ہونے والی تصویر حرام ہے، باقی سب کی اجازت ہے۔ ایک تیسرا موقف یہ تھا کہ ٹی وی، ویڈیو تصویر کے حکم میں ہی نہیں |