Maktaba Wahhabi

65 - 79
شدت کی وجہ سے جھکتا نظر آتا ہے۔ اہل نظر اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں ! بہرحال ہمارے ممدوح کا یہ موقف ایک مسلمہ امر ہے کہ ٹی وی اشتہارات کی ایک دکان ہے، جو عوامی میلانات کے بل بوتے پر مخصوص رجحانات کا اِبلاغ کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ کاروبار سمیٹ سکے۔ البتہ یہ اعتراض خالصتاً کمرشل چینلوں کے بارے میں تو درست ہے، لیکن ایسے ٹی وی چینل جو محض عوام کی بجائے حکومت یا کسی مخصوص مشن کے تحت خارجی اِخراجات پر چلتے ہوں ، ان کے بارے میں ا س اعتراض کی نوعیت قدرے کم ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جن علماے عرب نے ٹی وی چینلوں پر آنے کی اجازت دی ہے، ان کے پیش نظر دین پسند حکومت یا اسلامی مقاصد کے فروغ کیلئے کام کرنے والے چینل ہی رہے ہیں ۔ البتہ ٹی وی کے ڈھانچے کو دیکھتے ہوئے یہ بات پھر بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ ایسی صورت میں عوام تفریح اور من پسند شے کے حصول کے لئے اس کی بجائے دوسرے چینلوں پر ہی اپنا زیادہ وقت صرف کریں گے، اِلا یہ کہ ان کے پاس اس واحد چینل کے سوا کوئی اور اِمکان ہی موجود نہ ہو۔ جیسا کہ یہ صورتحال پی ٹی وی کو پیش آچکی ہے کہ ’جیو‘ کے ہمہ رنگ چینل متعار ف ہوتے ہی پاکستان کے عوام نے پی ٹی وی کو چھوڑ کر اُسے اپنی دلچسپیوں کا مرکز بنا لیا۔ ٭ زیر تبصرہ مضمون میں ایک تصور یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ تعلیم وتعلّم میں دو حواس بامقصد نہیں ہوا کرتے۔ راقم کی نظر میں مقالہ نگار کا یہ دعویٰ مثالیت پسندی کا ایک رجحان تو ہوسکتا ہے جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ساتھ نبی مجسم کے طورپر تزکیۂ نفس کے لئے مبعوث کیا گیا، لیکن اسے تعلیم وتعلّم کا لازمہ قرار دینا درست نہیں ۔ چنانچہ بعض اوقات وحی کا تذکرہ، بیان کرنے والے پر وہ تاثیر نہیں چھوڑتا، جتنا اپنے سامع پر۔ حدیث ِنبوی بھی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اس بندے کو تروتازہ رکھے، جس نے میری حدیث کو آگے بیان کیا، بعض اوقات بیان کرنے والے سے سننے والا زیادہ فائدہ اُٹھا لیتا ہے۔‘‘ اس لئے میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ موصوف کا یہ دعویٰ مثالیت وکمالیت پر مبنی رجحان تو ہے لیکن تعلیم کا اسی پر منحصر ہوجاناضروری نہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ اِبلاغ کا میدان تعلیم و تزکیہ سے مستقل وجود بھی رکھتا ہے اور دونوں کے تقاضے واَسالیب مختلف ہیں ۔
Flag Counter