٭ زیر تبصرہ مضمون میں روایت پسندی کی بنا پر خانقاہی نظام یا تصوف کی طرف مائل جو بعض مثالیں پیش کی گئی ہیں ، ان پر ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ شرعی استدلال کا مرکز و محور براہِ راست قرآن وسنت کو ہی ہونا چاہئے۔ محض تعاملِ اُمت کی بنا پر مسلمانوں میں مروّجہ روایات کو دین باور کرلینے کی بجائے اس تعامل و روایت کی میزان بھی قرآن وسنت کو ہی سمجھنا چاہئے۔ ان چند مخلصانہ گزارشات کے بعد اس امر کی نشاندہی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ ٹی وی پر تبلیغ اسلا م کے حوالے سے زیر تبصرہ مضمون اس اشتراک ِفکر کی نشاندہی کرتا ہے جس کی ترجمانی ’محدث‘ کے تصویر نمبر میں کی گئی ہے۔ یہ مضمون اس بحث کو مکمل ومتوازن کرنے کی ایک قابل قدر کاوش ہے کہ ٹی وی کو تبلیغ اسلام کے لئے موزوں اور مثالی پلیٹ فارم تو خیال نہ کیا جائے، البتہ مجبوری کے تحت اس پر تحفظ ِاسلام کی کوشش کی شریعت کی نظر میں نہ صرف گنجائش بلکہ تلقین پائی جاتی ہے۔ جب کسی شے کا دوسرا رخ بھی نکھار کر پیش کردیا جائے تو ایسی صورت میں اس سے بچنے کا اِمکان مزید قوی ہوجاتا ہے، اور زیر تبصرہ مضمون کا اہم ترین فائدہ یہی ہے کہ ٹی وی پر آنے والے اہل علم ٹی وی کے حوالے سے ان تصورات کو اپنے سامنے تازہ رکھتے ہوئے اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے اور اس امر کے بارے میں بالکل واضح رہیں گے کہ ٹی وی کو تبلیغ اسلام کا اصل اور کافی وشافی مرکز بننے کی صلاحیت حاصل نہیں ہے اور یہ لاؤڈ سپیکر کی طرح محض ابلاغ کا آلہ نہیں ہے بلکہ موجودہ مادی تہذیب کا ایک اہم کل پرزہ ہے۔ اس مضمون کی اہمیت ان حالات میں دو چند ہوجاتی ہے جب ٹی وی پر ’عالم آن لائن‘ کے پروگرام کے اخباری اشتہار میں علماے کرام کو یہ تلقین و تہدید بھی پڑھنے کو ملے : ’’ جو عالم ہے، وہ ’عالم آن لائن‘ ہے۔ اور جو [یہاں ] علم بیان نہیں کرتا، علماء کی نظر میں وہ خائن ہے۔‘‘ (دیکھئے: روزنامہ ’جنگ‘ میں اشتہار’ عالم آن لائن‘) مجاہد ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم محمد اسمٰعیل قریشی ایڈوکیٹ کی نئی انگریزی تصنیف شائع ہوگئی ہے! MUHAMMAD; The Messenger of God & Law of Blasphemy in Islam and the west اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شر انگیز لٹریچر کا مستند دلائل سے شافی جواب٭ غیر جانبدارانہ تبصرے |