Maktaba Wahhabi

64 - 79
٭ فاضل مضمون نگار نے اپنے مضمون میں متعدد دلائل وواقعات سے یہ ثابت کیا ہے کہ ٹی وی کا بنیادی نظم اورڈھانچہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اہم کل پرزہ ہے، جو اپنی اساس سے ہی تبلیغ اسلام کے متعدد تقاضوں سے متصادم ہے۔ ان کے اس استدلال کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ ٹی وی ایک دکان ہے جو اشتہار بازی کے ذریعے اپنے اِخراجات عوام سے پورے کرنے کے لئے ان کو وہی شے فراہم کرتا ہے، جس کی وہ چاہت کریں ۔ موصوف نے اس تصور کو بہت کھول کر بیان کیا ہے، اور یہ پیش نظر مسئلہ کا واقعتا اہم ترین پہلو ہے، جس کی وضاحت اُنہوں نے احسن انداز میں پیش کرکے امرواقعہ کو مزید متوازن کردیا ہے۔ اسی سلسلے میں مجھے گذشتہ ماہ کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے، جس میں لاہور کے دو ممتاز ترین علما کے ATV پر بعض پروگرام ریکارڈ کئے گئے، لیکن چونکہ ان پروگراموں سے ٹی وی انتظامیہ کی نظر میں عوامی خواہشات کی ترجمانی ممکن نہیں تھی، یا ان سے ناظرین کو من پسند وخوش کن تاثر ملنے کی بجائے اپنے عمل کی اِصلاح پر متوجہ ہونا پڑتا تھا، ا س لئے بغیر کوئی وجہ بتائے آئندہ اس سلسلے کو منقطع کرتے ہوئے یہ پروگرام مسترد کردیے گئے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹی وی پر وہی پروگرام پیش کئے جاتے ہیں جو عوام میں اِباحیت، بے جا سہولت او رآسائش وتعیش کو فروغ دیں ۔ کسی بھی ایسے عالم دین کا پروگرام جو لوگوں کو عمل کے لئے راغب کرتا، کوتاہی سے بچنے کی تلقین کرتا ہو، ان میں فکر مندی یا احساسِ ذمہ داری کو اُجاگر کرتا ہو، معاشرے میں چلتی روش کے خاتمے پر اُبھارتا ہو؛ایسے پروگرام بلکہ ان کے داعی / مقررین بھی بلیک لسٹ کردیے جاتے ہیں ۔ مثال کے طورپر آج جن لوگوں کو ٹی وی کے مقبول سکالر ہونے کا ’اِعزاز‘ حاصل ہے، لیکن اگر وہ مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب کی وکالت یا اسلام سے اس کی توجیہ تلاش کرنے کی بجائے پردہ یا داڑھی جیسے مسلمہ اسلامی شعائر، موسیقی یا تصویر کی حرمت اور غیرمسلموں سے علیحدگی اور ان سے جہاد وغیرہ کی تلقین شروع کردیں تو چند ہی دنوں میں ان کی عوامی مقبولیت کا فسوں ختم ہوکر رہ جائے گا۔ دراصل ایسے مقررین کا یہ ’زورِ بیان‘ ہوا کے رخ پر اُڑنے والے تنکے کے مشابہ ہے، جو منہ زور تہذیب کے بل بوتے پر بہت تیزی سے پروازکرتا دکھائی دیتا ہے جبکہ یہ اس تنکے کی اپنی پرواز نہیں ہوتی۔ دوسری طرف منہ زور ہوا کے راستے میں رکاوٹ بننے والا ایک تن آور درخت بھی ہوا کی
Flag Counter