Maktaba Wahhabi

63 - 79
ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کی سورۃ الشعراء کے آخر میں شاعری کی مذمت کرتے ہوئے ان کے پیروکاروں کو گمراہ، خود اُن کو حیران وپریشان اور اپنے قول وکردار سے غافل ذکر کیا گیا ہے۔ مگر اہل اسلام کے لئے جواباً اسی شاعر ی کو ہی نہ صرف گوارا کیا گیا ہے بلکہ ﴿اِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ﴾کہہ کران کو براہِ راست مستثنیٰ کردیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سیدنا حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کو ان کا جواب دینے کی تلقین کرکے ان کے حق میں روحِ قدس کی تائید کی دعاے خیر بھی فرمائی ہے۔ ٭ فاضل مقالہ نگار کا یہ مضمون اس تصور کی تردیدکے لئے لکھا گیاہے کہ ٹی وی پرعلما کے آنے اور تبلیغ اسلام کے لئے اس کو استعمال کرنے میں واحد شے مسئلہ تصویر ہے، جبکہ ان کے خیال میں درحقیقت ایسا نہیں ۔ ان کا یہ موقف بالکل درست اور ان کی یہ وضاحت قابل قدر ہے۔ بلکہ ’محدث‘ میں اس پر مزید اضافہ کرتے ہوئے یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ ’’ٹی وی سکرین جس طرزِ استدلال اور عاقلانہ معروضیت کی متقاضی ہے، ایمان وایقان میں ڈھلے اعتقادات ونظریات اس طرزِ بیان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘‘ مزید برآں ٹی وی پر انتظامی نزاکتوں ، نشست وبرخاست ، سوال وجواب، شرکا وحاضرین کے انتخاب اور ایڈیٹنگ کے نام پر جس اِبلاغی فن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، ان کو بھی پیش نظر رکھ کر ہی علماے کرام کو کسی ٹی وی پروگرام میں شامل ہونا چاہئے۔ ایسے ہی راقم کا وہ اقتباس جس کی نشاندہی فاضل مضمون نگار نے اپنے مضمون کے آخر میں فرمائی ہے، اس امرکامؤید ہے کہ ٹی وی پر تبلیغ اسلام کا مسئلہ اس قدر سیدھا سادا نہیں ۔ ٹی وی پر اسلام کی تبلیغ و تشریح کے حوالے سے یہ امر بھی خاصا توجہ طلب ہے کہ چودہ صدیوں سے مسلم علما وفقہا دین کی تشریح و تعبیر میں جس احتیاط او رذمہ داری کا اظہا رکرتے آئے ہیں ، ٹی وی پر آنے کے بعد ربّ ِکریم کی مراد و منشا کی ترجمانی جیسا حساس معاملہ ایک روزمرہ گپ شپ اور تبادلۂ افکار کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ اسی ٹی وی ماحول کا ’ثمرہ‘ ہے کہ علماے کرام کے اِعزاز ووقار اور دین کے بارے میں ان کی رائے پر اعتماد واستناد کے رویے کو شدید ٹھیس پہنچی ہے اوران کی رائے کو کسی عام شخص سے زیادہ وقعت حاصل نہیں رہی!!
Flag Counter