Maktaba Wahhabi

62 - 79
حرمت کو جانتے ہوئے تبلیغ اسلام کیلئے حالت ِاضطرار یا اخف الضررین کے تحت گوارا کیا جائے۔ ٭ فاضل مقالہ نگار کا یہ اِستدلال اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ٹی وی کے ذریعے تبلیغ اسلام کے تقاضے پورے کرنا اور اسے اس مقصد کے لئے موزوں سمجھنا بالکل سطحی اورعامیانہ رویہ ہے۔ لیکن یہ شبہ واعتراض تو اس وقت صادق آتا ہے جب علماے کرام نے اپنے تئیں ٹی وی کا یہ مصرف قرار دے لیا ہو۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ علما چار دہائیوں سے ٹی وی کو منبع شر وفساد سمجھتے اور بیان کرتے آئے ہیں ۔ لیکن جب اس کی اثر انگیزی اور فتنہ پروری حد سے بڑھنے لگی، دین کے تصورات کو مسخ کیا اور کفر سے ملایا جانے لگا، قوم تبدیل ہونے لگی اور غلطی پر چلنے کی جو دلی خَلش تھی، اس کو بھی نام نہاد ٹی وی سکالر مٹانے لگے، تب کمتر ضرر بلکہ مولانا اثری کے الفاظ میں ’ایمان کو بچانے کے لئے‘ علما کو اس بارے میں اپنے سابقہ رویے پر از سرنوغور کرنا ضروری ٹھہرا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ہمارے زیر تبصرہ مضمون کا اپنا تما م رجحان بھی ٹی وی کے صریح خلاف ہے، لیکن حالات کے اس جبر کو وزن دیے بنا وہ بھی نہ رہ سکے اور اُنہیں بھی اپنے مضمون کے آخر میں یہ قرار دینا پڑا کہ ’’ٹی وی کو تبلیغ دین کے لئے آئیڈیل ذریعے کے بجائے ایک اِضطراری حکمت ِعملی (strategy) کے طور پر قبول کرنا چاہئے اور وہ بھی اپنی شرائط کے ساتھ۔‘‘ غالباً مضمون نگار نے اپنے تئیں یہ فرض کرلیا ہے کہ علماے کرام بڑی خوش دلی اور رغبت سے ٹی وی کو تبلیغ اسلام کا بہترین سٹیج سمجھ کراس پر جلوہ افروز ہونا چاہتے ہیں ،جبکہ یہ تاثر درست نہیں ہے؛ مضمون نگار کی اس نکتہ کو نکھارنے کی کاوش قابل تحسین ہے۔ اگر کوئی ’محدث‘ کے تصویر نمبر سے یہ سمجھتا ہے کہ اس کے ذریعے ہر قسم کے ٹی وی پروگراموں یا تصویر سازی کی اجازت کا موقف پیش کیا گیا ہے تو راقم کی نظر میں وہ غلطی پر ہے۔ تصویر کے سلسلے میں بہترین موقف یہی ہے کہ اس کو اَخف الضررین یا مقاصد ِ شریعہ کے فروغ کی حدتک گوارا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ علما کے جتنے بھی اقتباس پیش کئے گئے ہیں ، وہ حکومتی جبر، غلبہ اسلام اور دین کو بچانے کے نقطہ نظر سے مخصوص ہیں ۔ یاد رہے کہ شریعت ِاسلامیہ میں ناگوار شے پراِلزاماًعمل کرنے کی شرعی دلیل بھی موجود
Flag Counter