کیا جاسکتا۔ جس دین نے ایسے شخص کی شہادت قبول نہیں کی جو بازاروں میں سر عام کھاتا پیتا ہوا پایا جائے تاکہ شاہدکے درجۂ ثقاہت کا اندازہ ہو، اس دین کے وارث علما ٹی وی میں میزبان عورتوں کے کمرے میں انتظار فرماتے، حسب ِضرورت میک اَپ کرواتے، کئی کئی گھنٹے ریکارڈنگ کے لئے انتظار فرماتے اور رنگین کپڑے پہن کر جاتے ہیں ۔ یاد رہے کہ ٹی وی کے کیمرے کے لئے صرف سفید لباس ناقابل قبول ہے، اس لئے ٹی وی والے مشورہ دیتے ہیں کہ سفید کپڑے پر رنگین واسکٹ پہنو یا اسکرین رنگین لگائیے۔ اس کے کیمرے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ رنگ بھی پسند نہیں ۔ رنگینی کے بغیر ٹی وی کا کام ہی نہیں چلتا اور رنگینی کا دین سے کوئی تعلق نہیں ۔ دین سنجیدگی، برد باری ، وقار، تحمل، نفاست کے بغیر عام نہیں ہوسکتا۔ دین پہنچانے اور تیل فروخت کرنے میں فرق ہے اور ٹی وی دونوں کا موں کو یکساں سطح پر پہنچا دیتا ہے۔ نیکی بدی کے ذریعہ غالب نہیں ہوسکتی۔ ٹی وی کا مقصد کیا ہے، اس کی ما بعد الطبیعیات کیا ہے، اس کے مقاصد کہاں سے آتے ہیں اور کون طے کرتا ہے ، اگر ان سوالوں پر علماء کرام غور فرمالیں تو اُنہیں اس دھوکے کی حقیقت معلوم ہو جائے گی ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ٹی وی پر آنا حرام ہے، حلت و حرمت کا فیصلہ کرنا یقیناعلماے کرام ہی کو زیب دیتا ہے۔ ہمارے مضمون کا مقصد تو ٹی وی کے بارے میں سادہ لوحی پر مبنی رویے کی حقیقت واضح کرنا ہے۔ اگر واقعی کوئی محسوس کرتا ہے کہ تبلیغ دین و اِبطال باطل کے لئے ٹی وی پر آنا ناگزیر ہے تو اسے درج بالا باتوں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ اسے ٹی وی کو تبلیغ دین کے لئے آئیڈیل ذریعے کے بجائے ایک اضطراری حکمت ِعملی (strategy) کے طور پر قبول کرنا چاہئے اور وہ بھی اپنی شرائط کے ساتھ۔ مختصر لباس میں ملبوس خواتین کی میزبانی میں پروگرام کرنے سے صاف انکار دینا چاہئے، دورانِ پروگرام ٹی وی اشتہارات کی نوعیت معلوم کرنا چاہئے، بحث سے قبل مکالمے میں شریک شرکا کے بارے میں معلوم کرنا چاہئے کہ کہیں جہلا سے مکالمہ تو نہیں ہوگا، مکالمہ شروع کرنے سے پہلے پروگرام کے ابتدا میں ہی مکالمے میں شریک افراد کے فکری منہاج (paradigm) کے بارے میں سوال کرنا چاہئے کہ آیا تم کس منہاج کے آدمی ہو، اہل سنت والجماعت کے اجماعی موقف کو مانتے ہو یا نہیں ؟ کیونکہ جب تک فکری منہاج ہی معین نہ ہو بحث لا حاصل رہتی ہے۔ میزبان اگر غیر متعلق یا غلط سوال پوچھے تو اسے یہ کہہ کر کہ ’یہ سوال ہی غلط ہے‘ چپ کرا دینا چاہئے۔ مشہور امریکی مفکر نام چومسکی (Chomsky) نے ایک مرتبہ بیسویں صدی |