(radical) دعوت کے نتیجے میں گراہم کی عوامی شہرت میں اضافہ ہونے لگا۔ لیکن پھر اسے امریکی ٹی وی کے ذریعے عوام الناس تک اپنا پیغام پہنچانے کی سوجھی اور نتیجتاً وقت گزرنے کے ساتھ اس کی دعوت کے تیور بدلنے لگے۔ چند ہی دہائیوں میں اس کی دعوت راسخ العقیدہ عیسائیت کے فروغ کے بجائے کثیر الانواع تصوارتِ خیر(pluralism) پر مرکوز ہوکر رہ گئی۔ وہ عیسائیت کے معاشرتی غلبے کے ایک پرجوش حامی کے بجائے ہر امریکی صدر کا خواجہ سرا دکھائی دینے لگا۔ وہ شخص جو کبھی گناہوں بھری امریکی زندگی پر کڑی تنقید کیا کرتا تھا، کلنٹن کے مونیکا کیس پر کان لپیٹ بیٹھا رہا۔ اس کی تبدیلی کی وجہ صرف یہ تھی کہ گراہم جان گیا تھا کہ کیا چیز ٹی وی پر بکتی ہے اور کیا نہیں ؟ اچھے سے اچھا عالم بھی ٹی وی کے نظامِ جبر کے سامنے اس طرح مجبور ، بے بس ، بے کس ، بے نوا اور بے وفا ہو جاتا ہے کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔ اس کی وفاداری صرف ٹی وی سے باقی رہ جاتی ہے اور اس کا مطمع نظر یہ ہو جاتا ہے کہ یہ آلہ ہماری پہنچ میں رہے تاکہ خیر عوام تک پہنچانے کا ذریعہ محفوظ رہے، چاہے اس ذریعے کی حفاظت کرنے کے جنون میں مقصد ہاتھ سے نکل جائے۔ چند لوگ بظاہر ٹی وی کے بے تاج بادشاہ دکھائی دیتے ہیں کہ جو چاہیں کہتے ہیں ، لیکن حقیقتاً وہ ٹی وی پر نیم برہنہ خواتین کے جھرمٹ میں بیٹھ کر پر جوش طریقے سے پردے کے خلاف دلائل دیتے تو دکھائی دیں گے مگر مجال ہے کہ کبھی ان بے حیا عورتوں کے لباس پر تنقید کردیں ؛ تنقید تو دور کی بات وہ تو اُنہیں نصیحت بھی نہیں کرسکتے ۔ نجانے ان عورتوں کے بجائے جن کے لباس چھوٹے ہوتے جارہے ہیں ، اُنہیں ایسی عورتوں کی فکر کیوں دامن گیر ہوتی ہے جنہوں نے زیادہ لباس پہن رکھا ہے؟ درحقیقت امریکہ میں ٹی وی کو مذہبی تعلیمات کے فروغ کے لئے نہیں بلکہ چرچ کے متبادل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جس کے ذریعے عوام الناس کا رابطہ چرچ اور پوپ سے کاٹ کر گراہم جیسے ’عالم آن لائنوں ‘ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ مذہبی تعلیمات کے روایتی نظام میں مقامی مساجد کے ائمہ اور خانقاہوں کے بزرگ اَفراد کے معلم و مزکی ہوا کرتے ہیں ۔ تعلیم، تزکئے اور تبلیغ کے اس روایتی ڈھانچے کا فائدہ یہ ہے کہ ایک فرد تعلقات کے ایسے تانے بانے میں بندھ جاتا ہے کہ اس کے لئے بنیادی مذہبی معاشرتی تعلیمات و اخلاقیات کی خلاف ورزی کرنا ممکن نہیں رہتا، کیونکہ وہ سب کی نظروں میں ہوتا ہے، لیکن ٹی وی پر عالم آن لائن سے ہدایت حاصل کرنے کے طریقے میں فرد پر تعلقات کا کوئی جبر |