ہوتی، لیکن ٹی وی سے دینی پروگرام جب نشر ہوتے ہیں تو کیا سننے والا اس حالت میں ہوتا ہے کہ وہ اس فیض سے اثر حاصل کرسکے؟ حصولِ علوم خواہ وہ دینی ہو یا لادینی، اس کا ایک خاص طریقہ ہے، اس طریقے کو اختیار کیے بغیر نہ دین ملتا ہے اور نہ ہی دنیا ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں Virtual Universities کا تجربہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا، کیونکہ تعلیم کبھی فاصلاتی طریقے سے حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ علم کا حصول اُستاد کی صحبت، فیضانِ نظر اور عطاکے بغیر ممکن نہیں ۔ ویڈیو کا نفرنسنگ کے ذریعے بھی حصولِ علم کے تجربے کا میاب نہیں ہوسکے، جب دنیاوی علم (material knowledge) ٹی وی اور ویڈیو سے حاصل نہیں ہوسکتا تو اسے دینی تعلیم کے فروغ کا ذریعہ سمجھنا محض عامیانہ نقطہ نظر ہے۔ دین سیکھنے یا سکھانے سے آتا ہے۔ یا تو کوئی خلوص سے سیکھنا چاہے یا کوئی خلوص سے سکھانا چاہے۔ اس دو طرفہ عمل میں فریقین کے اندر کسی ایک فرد کا مخلص اور محنتی ہونا ضروری ہے جبکہ ٹی وی کے ذریعے رابطے میں خلوص نامی شے کا وجود ہی ناممکن ہوتا ہے۔ اگر کسی بزرگ کی محفل ذکر کو ٹی وی پر دکھایا جائے تو اس میں سمع و بصرکے سوا کوئی حس حصہ نہیں لے گی لہٰذاس محفل کا اثر ناظرین محسوس ہی نہیں کرسکتے۔ اسی لئے بہت سے وعظ، گفتگو اور تقریریں جو بہت عمدہ ہوتی ہیں جب کیسٹ اور ٹی وی پر ریکارڈ کرکے سنی جاتی ہیں تو وہ نہایت کمزور اور بے اثر لگتی ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ گفتگو کرنے والے کی شخصیت اپنے وجود اور روحانیت کے ساتھ آپ سے مکالمہ کرتی ہے اور آ پ خود بھی اپنے حواسِ خمسہ، عقل، وجدان ، جذبات، احساسات ، میلانات ، روح کے تاروں اور دوسری تمام خصوصیات کے ساتھ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں ، لہٰذا اس اثر کا ابلاغ ٹی وی اور ویڈیو کیسٹ سے نہیں ہوسکتا۔ یہ تو صرف زندہ صحبت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تزکیۂ نفس کے لئے کسی زندہ شخص کی شاگردی اور صحبت اختیار کرنا ضروری سمجھا گیاہے۔ جو شخص دین سیکھنے کے لیے محنت نہیں کرنا چاہتا اور جو عالم دین سکھانے کے لیے مشقت پر آمادہ نہیں ، دونوں دنیا کے محروم ترین انسان ہیں ۔ دین، علم وتعلّم، کیپسول نہیں ہے کہ اسے دے دیا جائے، یہ حکیم کی پڑیا نہیں ہے کہ پھانک لی جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ دین سیکھنے کے لئے وقار اور صبر ضروری ہے۔ ایک شخص جو پہلو بد ل بدل کر چینل بدل رہا ہے، چائے پیتے ہوئے اچانک اس کے ذہن میں سوال آیا اس نے فون اٹھایا اور ’عالم آن لائن‘ سے سوال کرلیا، سوال کرنے کا یہ طریقہ ہی درست نہیں ۔ |