میں گا بجا کر، مٹک کر، آلاتِ موسیقی کے ذریعے دعوتِ دین کی کوئی روایت نہیں ملتی، ایک آدھ استثنا حجت نہیں ہے۔ افسوس کہ ایک سابقہ گلوکار دین کی ترسیل، تعلیم، تبلیغ اشاعت کے سلسلے میں اختیار کیے جانے والے ذریعے کے بارے میں ہمارے جدیدیت پسند علماء سے زیادہ فہم دین رکھتا ہے۔ فرض کریں ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز سے اگر کفار دعوتِ ایمان قبول کربھی لیں تو ایمان کا اصل ذریعہ تو نور جہاں کی آواز ہے، اللہ کا پیغام تو حید نہیں ہے! کسی کی خوبصورت آواز پر ایمان لانے والا اس سے زیادہ خوبصورت آواز سن کر اپنا ایمان لمحوں میں بدل سکتا ہے۔ ابن جوزی نے اپنی کتاب میں وہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک عیسائی کی بیٹی نے کسی خوش الحان مؤذن کی آواز سن کر اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن ایک بد آواز مؤذّن کی اذان سن کر ایسے دین سے توبہ کرلی جس کی اذان ایسی کرخت آواز میں ہوتی ہے۔ اسلامی تاریخ و تہذیب میں لوگوں کا دینی مزاج اس طرح تیار کرنے کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ یہ وہی حکمت ِ عملی ہے جو ساٹھ کے عشرے میں عیسائیوں نے اختیار کی تھی۔ کلیسا میں عبادت کے لئے نوجوان لڑکے لڑکیاں نہیں جاتے تھے تو عیسائی راہبوں نے کلیسا کے ساتھ سستے قحبہ خانے [Pub] کھول دیے، لیکن اس کا راستہ کلیسا کے اندر سے گزر کرجاتا تھا۔ عیسائی قدامت پسندوں نے اعتراض کیا تو عیسائی علما نے جواب دیا: کم از کم نوجوان اس راستے سے گزرکر قحبہ خانے جائیں گے تو اُنہیں کلیسا، خدا، مریم علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام تو یاد رہیں گے، ہوسکتاہے اس راستے پروہ پلٹ آئیں ۔ ٭ علم کو اشتہار بازی اور عوامی پسند ناپسند کے بل پر عام کرنا اس کی توہین ہے: ٹی وی کو دکان اور فروخت کے عمل کے بجائے ذریعۂ تعلیم و تدریس و تربیت سمجھنا سادہ لوحی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ علم مصنوعات کی اشتہا ر بازی کے ذریعے عام کیا جائے اور تعلیم و تدریس سے پہلے یا اس کے بعد یا اس کے دوران وقفے وقفے سے تعلیم و تدریس کا عمل روک کر لوگوں کو اشتہارات دکھائے جائیں ۔ اس قسم کے پروگرام سے کوئی سنجیدگی، وقار اور علمیت نہیں پھیل سکتی کیونکہ یہ علم کو پرا گندہ کرنے ، آوارہ بنانے ، چھچھور پن کی سطح پر لے جانے، اس کے وقار کو ختم کرنے ، اس کی اہمیت کو کم کرنے اور اسے لفنگے پن کے عمل کاحصہ بنادینے کی کوشش ہے، اور کہنا پڑتا ہے کہ نہایت کامیاب کوشش ہے۔ |