تعمیل کریں گے۔ علماء کو ٹی وی والے بتائیں گے کہ آپ کو کس موضوع پر بولنا ہے، کب تک بولنا ہے ، کس اشتہار پر وقفہ کرنا ہے ، کن مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے آپ کو اور آپ کے پروگرام کو استعمال کیا جائے گااور کب آپ نے کہنا ہے کہ’’آیئے! اب ہم وقفہ لیتے ہیں ۔‘‘ سوچئے تو سہی اس سارے عمل میں آپ کی حیثیت کیا ہے ؟ آپ کہاں کھڑے ہیں ؟ کیا آپ ایک تابع مہمل کے سوا بھی کچھ ہیں ؟ یہ بات علما طے کریں گے کہ عوام کو کیا بتانا ہے یا اشیا کی فروخت کا دھندہ کرنے والے ٹی وی کے جہلا علماے کرام کو بتائیں گے؟ دیکھئے یوں تو دین کے مآخذ چار ہیں : قرآن و سنت ،اجماع وقیاس، لیکن ٹی وی پر دین کے مآخذ صرف دو رہ جاتے ہیں ۔یہ دو مآخذبھی شو بزنس سے متعلق ہیں یعنی اسلامی موضوعات پر بولنے والے مقرر کا انداز بیان(style of talking) اور گفتگو میں بے پناہ اعتماد (confidence)۔ جو شخص بھی لچھے دار گفتگو کرنے کا ماہر ہو، اپنے جہل پر نہایت اعتماد کے ساتھ قائم ہو کر گفتگو کر رہا ہو، وہی کامیاب مقرر قرار پاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کے علم و جہل کا تعین نہ اس کے اندازِ بیان سے ہوتا ہے اور نہ ہی اعتماد سے بلکہ اس کا تعلق اس کے دلائل کے وزن سے ہوتا ہے۔ اور یہ فیصلہ کہ کس کا علم اور دلیل و زنی ہے، عوام کا کام نہیں ، علما کا کام ہے۔ اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام یہ بتا رہے ہیں کہ عالم کون ہیں ، جو جتنا چرب زبان اور پر اعتماد ہے، وہی سب سے بڑا عالم ٹھہرتا ہے۔ جاہلوں کو ان کی فنکاری کی بنیاد پر عالم ثابت کرنا ٹی وی کا کمال ہے۔ ٹی وی کے عوامی سروے بتاتے ہیں کہ کون سا عالم بڑا عالم ہے، کیونکہ کسی آدمی کے بڑے ہونے کا (سرمایہ دارانہ) طریقہ یہ ہے کہ اسے کتنے عوام پسند کرتے ہیں اور اس پروگرام کو کتنے ادارے اشتہارات دیتے ہیں ۔ لہٰذا ٹی وی کے جس دینی پروگرام کو زیادہ کاروبار ملے اور جس پروگرام پر عوام کا ردّعمل سب سے زیادہ آئے، وہی اصلی اور حقیقی عالم ہے اور وہی پروگرام اصلی دینی پروگرام ہے۔ ٭ تبلیغ دین کا اپنا ایک مزاج ہے جو ٹی وی ماحول سے قطعی مختلف ہے: ٹی وی کی ساخت ومقصدیت کو نظر انداز کرکے یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ ٹی وی کے ذریعے بڑے پیمانے پر دعوت پھیلائی جاسکتی ہے۔ ایک لمحے کے لئے مان لیں کہ واقعی لاکھوں لوگ سنجیدگی کے ساتھ دینی پروگرام دیکھتے ہیں ، لیکن پھر بھی علم دین کے مزاج اور تبلیغ دین کے طریقے کی اہمیت کیسے نظر انداز کردی جائے؟ دیکھئے عوام الناس کی بڑی اکثریت کھیلوں کے مقابلے دیکھنے میدانوں میں |