Maktaba Wahhabi

47 - 79
دیگر کھیلوں کی بنیاد پر دورِ جدید کے اولمپک گیمز اور عالمی کھیلوں کے مقابلوں کا اِثبات کرنے لگے تو ایسے قیاس کو قیاس مع الفارق نہ کہیں تو اور کیا کہیں ؟ اس شخص کا قیاس اس مفروضے پر مبنی ہے کہ موجودہ کھیل کی نوعیت بھی ویسی ہی ہے جیسی صحابہ رضی اللہ عنہم کے کھیلوں کی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ کھیل صرف کھیل نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک معاشرتی ادارہ (social institution) ہیں ، جن کی حیثیت اَربوں ڈالر سرماے والی ایک انڈسٹری کی ہے، جس کے بقا کے لئے ضروری ہے کہ کچھ لوگوں کی زندگیوں کا مقصد ہی کھیلنا بن جائے یعنی کھیل ہی ان کی پہچان (profession)ہو اور عوام الناس دنیا و آخرت سے بے پرواہ ہوکر جنونیوں کی طرح کھیلوں کے تماش بین بن کر اَربوں ڈالر اُن پر برباد کردیں ۔ اور تو اور حکومتوں کا بھی یہ بنیادی وظیفہ ہو کہ وہ کھیلوں کے فروغ کے لئے سہولتیں فراہم کرے تاکہ عوام الناس ان میں مشغول ہوں اور اپنی نسلوں کو جہنم کی تیاری کرنے کے لئے کھلاڑی بنانے پر راغب ہوں وغیرہ وغیرہ۔ آخر کھیل ایک ’وقتی شخصی تفریح ‘ اور ’کھیل ایک معاشرتی ادارے ‘ میں کیا مماثلت ہے؟ اسی طرز کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ بخاری شریف کی کتاب الحدود میں ایک ایسے صحابی رضی اللہ عنہ کا ذکر موجود ہے جو رسالت ِ ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی فرحت ِ طبع کی خاطر مزاح فرماتے۔ اب فرض کریں کوئی شخص ان صحابی رضی اللہ عنہ کے عمل کو بنیاد بنا کر معاذاللہ موجودہ دور میں مزاحیہ اداکاری (comedy) کی پوری انڈسٹری کو ’اسلامی‘ ثابت کرنے لگے تو ایسے اجتہاد کو فساد نہ کہیں تو اور کیا کہیں ؟ بالکل اسی طرح ٹی وی کو لاؤڈ سپیکر پرقیاس کرنا اسی قسم کے قیاسات مع الفارق جیسی ایک مثال ہے۔ یہیں سے یہ نقطہ بھی صاف ہوجانا چاہئے کہ ہیومن رائٹس کی بعض شقوں کی اسلام سے مماثلت تلاش کر کے اُنہیں خطبہ حجۃ الوداع سے ماخوذ قرار دینا سراسرغیر علمی رویہ ہے! ٭ ٹی وی پر تبلیغِ دین ’اسلام‘ کی بجائے عوام اور منتظمین کی خواہش کے مطابق: پھر بذریعہ ٹی وی تبلیغ کے اس پہلو پر بھی سوچنا چاہئے کہ تبلیغ دین کے لیے تبلیغ کے طریقے کی بہت اہمیت ہے، یعنی تبلیغ کہاں کی جائے؟ کسے کی جائے؟ کس طرح کی جائے؟ کس وقت کی جائے ؟ کس بات کی تبلیغ کی جائے؟ مخاطب کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو کی جائے وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ٹی وی پر یہ فرق بر قرار رکھنا ناممکن ہے اور مقرر کو یہ مفروضہ ماننا پڑتا ہے کہ تمام سامعین کی ذہنی سطح یکساں ہے۔ ان تمام پہلووں کو مدنظر رکھنا تو ایک طرف ٹی وی پر توپروگرام بھی آپ کی مرضی کا نہیں ہوتا۔ ٹی وی والاآپ کو وہی موضوع دے گا جس کو وہ درست سمجھے گا، آپ تو صرف ان کے حکم کی
Flag Counter