حرص، حسد، طمع سے اوپر اُٹھ کر حق بات کا بیان ضروری ہے، خواہ اس حق کی زد، حق بیان کرنے والے پر پڑے۔ اگر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو فقیہ ِ اُمت ہیں ، اپنے علم وعمل وتقویٰ کے باوجود یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’میں نہیں جانتا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘ اوراس جواب کونصف علم قرار دیتے ہیں تو کیااُمت میں اب کوئی ایسا عالم پیدا ہوگیا ہے جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بڑا عالم ہو، جو ہر سوال کا جواب دے سکتا ہو اور کسی سوال کا جواب دینے میں اسے کوئی تردّد ، تامل یا تکلف نہ ہو ؟ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص لوگوں کے ہر سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہے وہ پاگل ہے۔ ‘‘ ( کبیر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نا اہل سے علمی گفتگو نہ کرو، ور نہ وہ تمہی کو جاہل کہے گا۔ علم ہو یا دولت تم پر دونوں کے حقوق ہیں ۔ ‘‘ ( دارمی) ’’عوام کو ان کی عقل کے مطابق مسائل بتاؤ۔‘‘ ( بخاری) دوسرے لفظوں میں ایسا نہ کرسکو تو خاموشی اختیار کرو۔ کیا ٹی وی پر خاموش رہنا ممکن ہے؟فرمایا: جب تم لوگوں کے سامنے ایسی گفتگو کر و گے جو ان کی عقل کی رسائی سے باہر ہو تو وہ کچھ لوگوں کے لئے فتنہ بن جائے گی۔ ( مسلم) ٹی وی پر اس طرح کے مباحثے کرنا کہ خدا ہے یا نہیں ؟ وجودِ خدا کیسے ثابت ہوتا ہے وغیرہ صرف فتنہ پردازی کے طریقے ہیں ۔ دنیاکی بڑی اکثریت آج بھی وجودِ خدا کی قائل ہے، انکارِ وجودِ باری تعالیٰ دنیا، خصوصاً مسلم دنیا میں سرے سے کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں ۔ ٹی وی پر اس قسم کے موضوعات کو اُٹھانے کا مقصد فکری انتشار پھیلانے، تفریح طبع مہیا کرنے اور اپنی علمیت کے اظہار کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ٭ ٹی وی کو لاؤڈ سپیکر جیسے آلہ ابلاغ پر قیاس کرنا درست نہیں : پہلے لوگ علم دین حاصل کرنے کے لئے مقتدر اصحاب و علما (authorities) سے رجوع کرتے تھے، اب علما خود عوام سے رجوع کررہے ہیں ۔ وہ بھی ایک ایسے واسطے (medium) اور آلے کے ذریعے جس کی بنیاد شر، نفع خوری، لذت، مزے، چٹخارے ، مال کمانے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے پر رکھی گئی ہے۔ جس کا ہر پروگرام موسیقی سے شروع ہوتا اور اسی پر ختم ہو تا ہے۔ عریانی و فحاشی سے گزر کرہی اسلامی پروگرام کا وقت آتا ہے اور دینی پروگراموں کے دوران بھی عریاں اشتہارات دکھائے جاتے ہیں ۔ دین اور عالم دین ٹی وی پر فسق و فجور اور طغیان و عصیان کے درمیان گھرا ہوتاہے |