مطالعہ کے اظہار پر مجبور ہیں تاکہ ان کی علمیت و عظمت مسلم ہو جائے۔ اس کی وجہ علما کا کبر، ریا اور غرور نہیں بلکہ ٹی وی کے نظامِ جبر کا ڈھانچہ ہے ۔ ٹی وی کے نظامِ جبر کا تقاضا یہ ہے کہ فون پریا مجلس مکالمہ میں جیسے ہی کوئی سائل سوال پوچھے، متعلقہ عالم فوری جواب دے ۔ اگر کسی عالم نے جواب دینے میں تامل کیا یا اسے تردّد ہوا یا اُس نے کہا کہ مجھے جواب معلوم نہیں تو وہ عالم خواہ کسی قدر جید، متبحر اور مسلمہ ہو، اسی لمحے عوام کی نظروں میں اپنا وقار، معیار اور اعتبار کھودے گا، بے وقعت (discredit) ہو جائے گا اور ٹی وی انتظامیہ بھی اسے بے کار عالم قرار دے کر پروگرام سے خارج کردے گی۔ اگر کوئی عالم کسی پروگرام میں ہرسوال پر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تتبع میں احتیاطاً یہ کہتا رہے کہ ’’میں نہیں ، اللہ جانتا ہے‘‘، یا سلف کی پیروی میں یہ کہہ دے کہ’ ’میں نہیں جانتا، آپ فلاں عالم سے پوچھیں ‘‘ یا ’’میں نے اس مسئلے پر ابھی غور نہیں کیا ‘‘ یا یہ کہ’ ’میں اس مسئلے پر پچھلے کئی سال سے غور کررہا ہوں ، لیکن ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچا‘‘ یا یہ کہہ دے کہ ’’میرے ساتھ اس پروگرام میں جو دوسرے عالم بیٹھے ہیں ،وہ شاید اس کا بہتر جواب دے سکیں ، میں متامل ہوں ۔‘‘ تو اسی لمحے اس عالم کی عزت، شہرت، حیثیت ،مرتبہ، وقار، علم، تقویٰ، خشیت،علمیت نہ صرف عوام کی نظر وں میں بلکہ اس کے اپنے اہل مسلک کی نظر میں بھی مشکوک ہوجائے گی۔ اب چونکہ ٹی وی دوکان ہے، لہٰذا دکان پر کسی گاہک کو انکارنہیں کیا جاسکتا اورنہ دکان بند کرنا ہوگی۔ پرچون کی دکان پر آنے والے ہر گاہک کو دکان والا مطلوبہ اشیا دے گا، اگر مطلوبہ اشیا نہیں ہیں تو اس کا متبادل دے گا۔ اگر چائے کا ایک برانڈ نہیں ہے تو دوسرا برانڈ د ے گا یا کہے گا کہ اس چائے کا معیار صحیح نہیں ہے۔ ہم نہیں لے رہے یا آج کل مانگ زیادہ نہیں آرہی وغیرہ۔ وہ کسی نہ کسی طرح گاہک کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے گا۔ گاہک بضد ہوا تو دوسری دکان سے وہ چیز منگوالے گا، لیکن گاہک کو خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا،اسے اپنا اسیر بنا کر رہے گا۔ لیکن یاد رہے کہ علم اور اشیاے ضرورت میں بنیادی فرق ہے۔ عالم کا کام سائل کو خوش کرنا نہیں ہے ۔ استفسارات اور سوالات کا جواب اگر معلوم ہے تو دیا جائے گا، اگر توقف ہے تو سائل کووقت دیا جائے گا،کیونکہ ہرسوال محل تحقیق اور محل تفکر و تدبر و تجزیہ ہے۔ عالم پرچون فروش نہیں ہے کہ جو بھی گاہک آئے، اس کے سوال پر ایک پڑیا اسے تھما دے۔ جیسا گاہک ویسی پڑیا کا فلسفہ اقلیم علم میں نہیں چل سکتا۔ علم دکاندار ی نہیں ، یہ منصب ِانبیا کی وراثت ہے جہاں خوف، |