صرف ’کیا جاننا ہے؟‘ (what to know) کا ہی نام نہیں بلکہ ’کیسے سننا اور بولنا؟‘ (how to listen and speak) بھی اس کا لازمی جز ہوتا ہے، یعنی علم کا ما فیہ (content) اور اس کے حصول کا طریقہ (medium) دونوں دینی تعلیم کا جزوِ لاینفک ہیں یہ دونوں جب تک اکٹھے رہتے ہیں ، دینی علم کی روحانیت اور اثر ات باقی رہتے ہیں جونہی آپ اُنہیں علیحدہ کریں گے، علم دین کی اثر انگیزی زائل ہوتی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس میں آج تک دینی تعلیم دینے کا رنگ ڈھنگ روایتی رکھا جاتا ہے ، دین کے سیکھنے کا ایک طریقہ ہے اور وہ طریقہ اختیار کئے بغیر دین نہیں مل سکتا۔ اسی لئے ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر کیسٹ کے ذریعے کوئی شخص دین کی روحانیت کا مکمل اِحاطہ ، اِدراک، احساس، تصور اوراندازہ نہیں کرپاتا۔ وہ ادھورا رہتا ہے اس کا علم و فہم دین بھی اَدھورا ہی رہتا ہے ۔ نماز جب گھر میں پڑھی جاتی ہے تو وہ ارد گرد کے علائق سے شدید متاثر ہوتی ہے، لیکن جب مسجد کے پرسکون ماحول میں ادا کی جائے تو اس کی لذت، حاضری و حضوری کی کیفیت، روحانیت، قلبی حالت سب کچھ بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ یہ گھر اور مسجد کے سانچے اور ڈھانچے کا فرق ہے۔ ہمارے تمام علماء تہجد کے بعد تصنیف و تالیف کا کام کرتے تھے، اس وقت میں جو لذت، برکت، جمالیات اور سکون ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو اس وقت مطالعہ کرے۔ ہمارے جید علماء کے کام میں جو برکت و روحانیت ہے، وہ تہجد اور فجر کی نماز کے بعد کی روحانیت کا فیضان ہے، عصر حاضر کے جدید یت پسند علماء اس فیض سے عاری ہیں ۔ تبلیغ دین بذریعہ ٹی وی کے منفی اثرات درج بالا بحث کو مد نظر رکھتے ہوئے اب ہم ٹی وی کے ذریعے علم دین پھیلانے کی کوششوں کی خرابیا ں بیان کرتے ہیں ۔ ٹی وی کی ساخت و مقصدیت تعلیم دین کے مزاج پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے، اس کا اندازہ درج ذیل نکات سے لگائیے: ٭ ہرسوال کا جواب دینا اور اپنی علمیت کا بے جا اظہار کرنا ٹی وی کے نظام جبرکا حصہ ہے: کبھی آپ ٹی وی پر ’عالم آن لائن‘ وغیرہ جیسے پروگراموں پر غور کیجئے جن میں لوگ سوالات پوچھتے ہیں اور علماے کرام جوابات دیتے ہیں ۔ ان پروگراموں کا مقصد سائل کی فوری تسلی اور تشفی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہر عالم ’ہر سوال ‘ کا فوری جواب (instant answer) دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ ٹی وی پر علماے کرام دین کی تبلیغ و اشاعت سے زیادہ اپنے تبحر علم اور وسعت ِ |