Maktaba Wahhabi

42 - 79
ہیں ۔ کمپنیاں اشتہارات پر روپے کیوں خرچ کرتی ہیں ؟ اس لئے کہ عوام الناس ان کی زیادہ سے زیادہ اشیا خریدیں اور ان کے نفع میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔ ایک فرد اس دھوکے میں مبتلا رہتا ہے کہ پچاس روپے ٹی وی لائسنس اور کیبل کی معمولی فیس دے کر اتنے سارے ٹی وی چینلز سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملنا مفت کا سودا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اشتہاری کمپنیاں اشتہارات کے اخراجات کو اشیا کی قیمت میں شامل کرکے سب کچھ لوگوں سے وصول کرتی ہیں ، گویا پورا معاشرہ مل کر ٹی وی ، فنکاروں ، اداکاروں اور کھلاڑیوں کو پالتا ہے۔ پروگرام ٹی وی چینلز کی پروڈکٹس ہیں جنہیں وہ اشتہارات کے عوض بیچ کر نفع کماتے ہیں ۔ ٹی وی ایک ایسا نظام ہے جس کا مقصد تعلیم وتدریس، تبلیغ وتلقین یا تطہیر نفس نہیں بلکہ نفس پرستی حرص و حسد اور نفع خوری کے عموم کے لئے صنعتی اداروں کی اشیا کی فروخت ہے جو اشتہارات کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ اصلاً و عملاً ٹی وی مشتہرین (advertisers) کے دھندے کو پھیلانے اور کمپنیوں کے نفع میں اضافہ کرنے کا دھندہ ہے۔ جیسے پرچون کی دکان کے مالک کا اصل مقصد نفع کمانا ہوتا ہے نہ کہ کوئی مخصوص شے بیچنا، اسی طرح ٹی وی کو اس بات سے کوئی سرو کار نہیں کہ وہ کیا بیچ رہا ہے بلکہ اس کا مقصد وہ شے بیچنا ہے جس کے ذریعے اس کا نفع بڑھ سکے اور جو ٹی وی کو محض ذریعہ ابلاغ مان کر اسے علم دین کی اشاعت کا ذریعہ سمجھتے ہیں ، وہ خوش فہمی کا شکار ہیں ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ٹی وی علم اور دین کے ذریعے بھی دھندہ کرنے اور کاروبار پھیلانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا، لہٰذا یہ رمضان میں دینی پروگرام پیش کرکے مال بناتا ہے۔ ٹی وی کے لئے ہر عالم کے دروازے کھلے ہیں بشرطے کہ وہ خود کو اس لائق ثابت کردے کہ اس کے ذریعے ٹی وی پیسے بنا سکتا ہے۔ اگرٹی وی کو پتہ چل جائے کہ کسی عالم یا کسی عابد زاہد کے سامعین کی تعداد زیادہ ہے تو اس کے نام پر بھی ٹی وی والے اشتہارات کا دھندہ شروع کردیتے ہیں ۔ ٹی وی پر یا اشیا فروخت ہوتی ہیں یا انسان۔ ٹی وی ایک مکمل نظام ہے جسے اگر نفع خوری اور لذت پرستی کے فریم ورک سے الگ کردیا جائے تو یہ سلسلہ ایک دن نہیں چل سکتا۔ آخر اشتہارات کے بغیر کروڑوں روپے کی لاگت کہاں سے پوری ہوگی؟ اور ان اشتہارات کا مقصد کمپنیوں کے نفع میں اضافے کے لئے صارفانہ معاشرت و معیشت (consumer society) کے فروغ کے علاوہ اور کیا ہے؟ ٹی وی کی یہ حیثیت سامنے رکھنے کے بعد اب دینی تعلیم کے مزاج پر غور کریں ۔ دینی تعلیم
Flag Counter