Maktaba Wahhabi

41 - 79
ہوتے ہی روح بھی تحلیل ہوجاتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ساخت ختم ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ افراد کے تعلقات کا وہ تانا بانا جو اس مقصد کے حصول کی ضمانت تھا، اب موجود نہیں رہا۔ کسی تہذیب کا زوال درحقیقت ان اداروں کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے عیاں ہوتا ہے جو ایک تہذیب کے مقا صد کے حصول کی خا طر افراد کے تعلقات کے نتیجے میں اُبھرتے ہیں ۔ ٹی وی کی ساخت و مقصدیت اور دینی علم کا مزاج اوپر دی گئیں مثالوں کا مقصد اس نقطے پر غور کی دعوت دینا ہے کہ کیا واقعی ٹی وی کی ساخت میں دینی تعلیم کا مقصد داخل کرناممکن ہے؟ اس سوال کے جواب کے لئے ٹی وی کی ساخت اور مقصدیت پر غور کرنا ہوگا، یعنی پہلے اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ ٹی وی کیا ہے؟ بنیادی طور پر یہ بنئے کی دکان ہے جس کا کام سرمایہ داروں کی تیار کردہ اشیا کو اشتہارات کی لیپا پوتی کے ذریعے عوام کو بے وقوف بناکر بیچنا ہے۔ ٹی وی اور پرچون کی دکان میں اصلاً کوئی فرق نہیں ، دونوں بازار میں اشیاے صرف و ضرورت[consumer goods] بیچنے کے لئے بیٹھے ہیں ۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ٹی وی کے بارے میں ہماری یہ رائے محض جذباتیت اور خام خیالی ہے تو ٹی وی پر معاشی (economic) و کاروباری (business) نقطہ نگاہ سے غور کیجئے۔ معاشی نقطہ نگاہ سے کسی کاروبار میں وصولیوں (revenues)اور اخراجات (costs) کا حساب لگایا جاتا ہے۔ ٹی وی کے اخراجات کیا ہیں ؟ اوّلاً: ایک ٹی وی چینل قائم کرنے کے لئے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی ضرورت ہوتی ہے، ثانیاً: ٹی وی پر نشر کئے جانے والے پروگرام بھی ٹی وی کے اِخراجات میں شامل ہوتے ہیں نہ کہ وصولیوں میں ، کیونکہ ٹی وی ان پروگراموں (مثلاً ڈراموں و فلموں وغیرہ) کو قیمتاً خریدتے ہیں ۔ ٹی وی کے پاس اِخراجات کی اتنی طویل فہرست پورا کرنے کا آخرذریعہ کیا ہے؟ اس کا جواب ہے: اشتہارات، یعنی ٹی وی اپنے اِخراجات اشتہارات دکھا کر وصول کرتے ہیں ۔ اگر معاشیات کا یہ مفروضہ درست ہے کہ کاروبار کا مقصد نفع کمانا ہے تو ظاہر بات ہے ٹی وی کا مقصد پروگرام دکھا کر اخراجات کرنا نہیں بلکہ اشتہارات دکھا کر روپے کمانا ٹھرتاہے، جیسا کہ اوپر بتایا گیا؟ ٹی وی کے نفع کا انحصار اس بات پر ہے کہ کتنی کمپنیاں اسے اشتہارات دینے پر تیار ہوتی ہیں اور زیادہ اچھے اشتہارات اسی ٹی وی چینل اور پروگرام کو ملتے ہیں جسے لوگ پسند کرتے
Flag Counter