اور مثبت پہلو کےبہانے منفی پہلو کو مزید رواج ملے گا۔ لیکن اضطراری کیفیت میں یہ کیا جا سکتا ہے کہ جو میڈیا کے چینل جاری ہیں ، ان سے وقت خرید کر ایسے بیانات اور مضامین پیش کیے جائیں جس میں مذہب اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور مخالف پروپیگنڈے کا شافی جواب ہو۔ اس مقصد کے لیے علمائے کرام کا پینل بنایا جائے اور یہ پینل اس بات کا اہتمام کرے کہ مشترکہ اہداف کو خوبصورتی کے ساتھ ٹیلی ویژن پر پیش کیا جائے اور باہمی نزاعات میڈیا پر نہ آنے پائیں ۔ علماء اپنے پروگرام کےعلاوہ ٹی دی پر نہ جائیں، خاص طور پر مذاکروں میں کیونکہ ان مذاکروں میں دین کا مضحکہ ہوتا ہے اور نتیجہ مخالف قوتوں کےحق میں جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں یہ بھی ہے کہ جمعیت علمائے ہند نے ہندوستان میں ایک اجلاس منعقد کیا جس میں اسی موضوع پر انہوں نے بحث کی اور انہوں نے اس کا صرف اتنا جواز دیا کہ دفاعی طور پر ٹی وی پر جایا جا سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خیر کی توفیق نصیب فرمائے۔ میں اسی بیان کےبعد حضرت مولانا رمضان سلفی صاحب کے بیان کی تائید کرتا ہوں اور حضرت مولانا حفیظ الرحمٰن صاحب کی کہ انہوں نے ماشاء اللہ بڑی تفصیل کے ساتھ اس پر بحث کی ۔ اقول قولی ہذا واستغفر اللہ العظیم ................................................. ۲۔حافظ صلاح الدین یوسف صاحب مدیر تحقیق و تالیف ، دارالسلام،لاہور أحمده و أصلى علي رسوله الكريم أمابعد ! کچھ علماء بعض حالات میں تصویر کا جواز پیش کر رہے ہیں جبکہ تصویر کی حرمت کے بارے میں بالکل اختلاف نہیں۔ بعض حالات میں جو وہ مختلف دلائل کےذریعے سے،کوئی کسی علت کے ذریعے ، کوئی کسی مصلحت کےحوالے سے یا دیگر دلائل کے ذریعے یہ کہتے ہیں کہ کیمرے کی تصویر، تصویر ہی نہیں ہےاور اس طرح اس کا جواز ثابت کرتے ہیں تو اس پر جتنے بھی دلائل سامنے آئے ہیں، وہ قطعاً تسلی بخش نہیں ہیں ۔ اس کے مقابلے میں جن لوگوں نے مطلق حرمت کا موقف یہاں بیان کیاہے ، ان کے دلائل الحمد للہ قرآن و حدیث کی رو سے زیادہ واضح بھی ہیں اورزیادہ مدلل بھی۔ میں بات مختصر کر رہا ہوں ، اس لیے دلائل پیش نہیں کر رہا ، وگرنہ بحث |