کرنسی نوٹ، رسائل وجرائد ، اخبارات اور ویزا، پاسپورٹ وغیرہ کا ذکر کیا اور اپنی بے مثال قوت بیانیہ کے ذریعے تصویر کے جواز پر کئی مزید دلائل پیش کیے ۔ حضرت مولاناحفظ الرحمٰن صاحب کے بیان کےبعد حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ سے اس موضوع پر گفتگو کی فرمائش کی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ تصویر بمعنی صورت کشی حرام ہے ، البتہ استعمال صورت میں گنجائش موجود ہے ۔ ۲۰۰۳ء میں پشاور میں ، دار العلوم دیوبند، پر ایک سیمینار منعقد ہوا، اس موقع پر دار العلوم حقانیہ میں دارالعلوم دیوبند کے ۲۰ سےزائد اساتذہ موجود تھے، پاکستان کےدیگر علماے کرام بھی موجود تھے، تصویر کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی تو سب نے اس کو ناجائز قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے بھی اس کی حرمت کی رائے کی تائید کی۔ البتہ انہوں نے ایک اہم بات فرمائی اور وہ یہ کہ یہ وہ واحد مسئلہ ہے جہاں علماء کا فتویٰ اور علماء کاعمل مختلف ہوجاتا ہے۔ آج جو زیر غور مسئلہ ہے وہ بھی تصویر سے متعلق ہے ۔ بےشمار احادیث تصویر کی حرمت اور ممانعت پر موجود ہے ۔ کوئی ایک حدیث یا فقہائے کرام کا کوئی جزئیہ تصویر کی تائید میں نہیں ہے ۔ مسلمان اہل علم اس میں دو رائے نہیں رکھتے ۔ دوسری طرف موجودہ دور میں میڈیا کی ترقی اور اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ پوری دنیا میڈیا پر متوجہ ہی نہیں ، بلکہ اُمڈ آئی ہے ۔ عرب وعجم، امریکہ ،آسٹریلیا،یورپ اور ایشیا اور تمام براعظم میڈیا سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ شاید ہی ایسے لوگ ہوں جو میڈیا کو باقاعدہ زندکی کا حصہ نہ بنائے ہوئے ہوں ۔چونکہ میڈیا پر لادین عناصر اور یہودی لابی کا قبضہ ہے ، اس لیے اسلام اورمسلمانوں کے لیے بطور ہتھیار زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ مذہبی شعائر کی بے حرمتی میڈیا کا مشن بن گئی، اس طرح کے پروگرام ترتیب دیے گئے جس میں شعائر اللہ کی بےحرمتی اورمذہب کامضحکہ اڑایا جائے اور مذہب سے بے زاری پیدا ہوا۔ اس صورت حال میں کچھ مراحل ایسے بھی آتے ہیں کہ دفاع اسلام کی خاطر اضطراری کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ اور حرمت میں اباحت کا پہلو نکل آتا ہے ۔ ایسے مرحل میں یہ بات تو قابل قبول نہیں کہ ہم ڈرامے یا فلمیں ترتیب دینا شروع کر دیں یا اپنا ٹی وی چینل بنا لیں، کیونکہ اس میں تصویر کی حرمت کاتصور مذہبی طبقہ میں بھی ختم ہو جائےگا |