چیز کے استعمال سے مشقت دور ہوسکتی ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ اس سے کسی صریح حکم کی مخالفت نہ ہو اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ کسی حکم کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہ ہو اور اس کے ناجائز ہونے میں علما کا اختلاف ہو، ایسی صورت میں اگرچہ جائزہونے کا قول مرجوح ہو، لیکن حاجت کے وقت اس پر فتویٰ دیا جاسکتا ہے، مثلاً تصویر کی اجازت پاسپورٹ کے لیے، شناختی کارڈ کے لیے یا مجرم کی شناخت وتعین کے لیے۔ (فتاویٰ دارالعلوم کراچی: ۱۵/۷/۱۴۲۶ھ) مذکورہ بالا تصورات کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نشریات کے لیے ٹیلی ویژن کے استعمال کی گنجائش نکل سکتی ہے،کیونکہ ٹیلی ویژن کی وضع خاص صرف لہوو لعب ہی کے لیے نہیں بلکہ دوسری کارآمد اور مفید باتوں کے لیے بھی ہے یعنی ٹیلی ویژن سے ممانعت نہی لعینہٖ کی بجائے نہی لغیرہ ہے ۔ لہٰذااسلامی نشریات کے لیے محدود شرعی چینل کے استعمال کی گنجائش نکل سکتی ہے جیسا کہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ ﴿ومن الناس من یشتري لہو الحدیث لیضل عن سبیل اﷲ بغیر علم ویتخذھا ھزوًا﴾ (سورۃ لقمان :۶) (اور ایک وہ لوگ ہیں کہ خریدارہیں کھیل کی باتوں کے تاکہ بجالائیں اللہ کی راہ سے بن سمجھے اور ٹہرائیں اس کو ہنسی) کے ضمن میں رقمطراز ہیں کہ ’’جس سامان کو جائز اور ناجائز دونوں طرح کے کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے، اسکی تجارت جائز ہے۔ ‘‘(معارف القرآن ۷/ ۲۳) لہٰذا درج ذیل شرائط کے ساتھ اسلامی ٹی وی چینل قائم کرنے کے بارے میں مشاورت کی جانی چاہئے: 1. اس چینل پر فلم اور گانے پیش نہ کئے جاتے ہوں ۔ 2. ترجمان اور خبر دینے والا مرد ہو۔ 3. صرف جائز خبریں پیش کی جاتی ہوں ۔ 4. ذی روح کی تصویر سے حتیٰ الامکان احتراز کیا جاتا ہو۔ تو پھر مسلمان اپنا علیحدہ ٹی وی چینل قائم کر سکتے ہیں اور ملی جماعتوں کے پروگراموں اور مجالس کو ملک و قوم تک پہنچانے کے لیے مذکورہ حدود میں رہتے ہوئے ٹی وی کے استعمال کی گنجائش نکل سکتی ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب |