چونکہ ہم بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کر چکے ہیں ، اس لئے اب میں اس کو دہرانا نہیں چاہتا۔ فوٹو گرافی اپنی بحث اور اس کا ہم نے جو خلاصہ نکالا، وہ سب ایک کتابچے کی شکل میں محفوظ کردیا گیا، اس کتابچے کو ہمارے دوست مولانا گوہررحمن مرحوم نے مرتب کیا تھا جس کے آخر میں تصویر کے مسئلے پرخلاصہ بھی موجود ہے۔ ہم نے اس وقت تک میسر معلومات اور علماے کرام کی تحقیق کی روشنی میں یہ موقف اختیار کیا تھا۔ ۱۹۹۱ء میں ہماری کمیٹی نے جو فیصلے دیے، مجھے اُمید ہے کہ اس مجلس کو آج بھی اس سے اتفاق ہوگا کیونکہ جن حضرات کی میں نے گفتگو سنی ہے، ان کی گفتگو کا حاصل بھی تقریباً یہی نکلتا ہے۔ وہ فیصلے مندرجہ ذیل ہیں : 1. قد ِآدم تصویر کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے۔کیونکہ چھوٹی تصویر کی جوہم نے اِجازت نکالی، وہ ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ اور دوسرا قاعدہ ’’الحاجۃ تنزل منزلۃ الضرورۃ عامًا أو خاصًا‘‘ کے تحت ہے۔ حاجت ِشدیدہ بھی بعض اوقات ضرورت کے درجے کو اختیار کرلیتی ہے۔ توہم نے بھی اس موقع پر سوچا کہ پورٹریٹ کی حاجت ِ شدیدہ نہیں ہے۔ ابھی یہاں بحث چل رہی تھی کہ بڑی بڑی شخصیات کی قدآور تصویریں لگائی جاتی ہیں اور لوگ ان کی تعظیم کرتے ہیں ۔ میری نظر میں ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے ۔ 2. تصویری بیج، سینے پر تصویر والے بیج لگانا وغیرہ بھی نہیں ہونے چاہئیں اوراس کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔ 3. تصویریں فروخت نہیں کی جائیں گی، اس کی بھی کوئی حاجت نہیں ہے کہ اس کو کاروبار بنایا جائے اور کوئی تصاویر کی فروخت یا دکان کھولے، یہ امر بھی ناجائز ہے۔ 4. خواتین کی فوٹویا تصویر نہیں بنائی جائے گی،کیونکہ اس کی بھی حاجت نہیں ہے۔ 5. تصویری نمائش نہیں ہو گی۔ اخبارات میں تصاویرپر سکوت البتہ اخبارات کے اندر جو تصویریں چھپتی ہیں ، جلسے جلوسوں اور اجتماعات کے جو پروگرام اور ان کی تصویریں چھپتی ہیں ، ان کو ہم نے نفی یااثبات ہر دو پہلو کے اعتبار سے نہیں چھیڑا۔ نہ تو |