کرتے ہیں ۔٭اوراگر ذریعہ غیر اہم ہو تو حکم مکروہ ہو گا ۔اسی طرح حالات وواقعات کے تناظر میں ذرائع اور وسائل کی اہمیت بھی بدل سکتی ہے۔تصویر کی دورِ حاضر میں یہی صورت ہے۔ شرعی مقاصد کے لیے اگر ذرائع ابلاغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار دیکھا جائے تو تبلیغ اسلام کے لئے تصویر کی ممانعت کے مفاسد اس کے مقابلے میں کمزور نظر آتے ہیں ، اس بنا پرتصویر کو چند شروط کے ساتھ الیکڑانک میڈیا پر گوارا کر لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ بعض لوگ اضطراراً تبلیغ اسلام کے لئے تصویر کو جائزقرار دیتے ہیں ، جبکہ اضطرار اور حاجت ہر دو کے حوالے سے ہمیں انتہائی رویہ سے بچنا چاہئے۔ شدید ضرورت تو وہ ہوتی ہے جس کو شرع میں اضطرار کہا جاتا ہے اور ایک عام حاجت ہوتی ہے جس میں نفع ونقصان کی مصلحت راجح پیش نظر ہوتی ہے،چنانچہ جہاں نفع ونقصان کا تقابل کیاجاتا ہے، اسے اضطرار نہیں کہتے۔ جیسا کہ میں ذکر کرچکا ہوں کہ سد ذریعہ کا تعلق مقاصد ِشریعت سے ہے اور عام طور پر مقاصد ِشریعت قواعد ِفقہیہ سے منضبط کیے جاتے ہیں ۔اسلئے میں قواعد فقہیہ (Legal Maxims) سے مسئلہ پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں ۔مثلاً قواعد فقہیہ ہیں : ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘، ’’الضرورات تقدر بقدرہا‘‘ یا ’’الحاجات تقدر بقدرہا‘‘ وغیر ہ۔ یاد رہے کہ قواعد فقہیہ کبھی بنیادی دلیل کے طور پر نہیں آتے بلکہ شریعت کا مزاج بتا تے ہیں ۔ پھر شریعت کی اس روح کا بھی ہمیں شرع کی عمومی تعلیمات سے یاخود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل سے معلوم ہوتاہے۔چنانچہ تصویر کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صریح حرمت بیان فرما رہے ہیں کہ سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں کو ہو گاجو تصاویر بنانے والے ہیں ۔ علاوہ ازیں اس کے وجود کے بارے میں شرع اتنی حساس ہے کہ اُس مقام پر رحمت کافرشتہ داخل نہیں ہوتا لیکن یہی تصویر اگر پیروں میں روندی جارہی ہو تو فرشتہ داخل ہو جاتا ہے اور وہی تصویر اگر بچیوں کی تربیت کے لیے حاجت بن جائے تو اس کی بنا پر گھر میں گڑیاں وغیرہ رکھی جا سکتی ہیں اور بچوں کو کھلونے بناکر بھی دیے جا سکتے ہیں ، جیسا کہ نبی کے گھر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گھڑیوں میں پروں والا گھوڑابھی موجود تھا ۔ سنن ابوداود میں حدیث موجود ہے: |