کے سر پر خود پہنے مسلح کھڑے تھے، اور چہرہ ڈھانپا ہوا تھا تو مغیرہ نے اس سے کہا تھا: پرے کر اپنا یہ ہاتھ، کہیں یہ تیری طرف واپس ہی نہ جائے۔ اور اپنی تلوار کے دستے کا اسے ٹھوکا بھی لگایا۔ تو عروہ نے پوچھا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کون ہے؟ بڑا بدخلق اور سخت مزاج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تیرا چچا زاد ہی تو ہے، مغیرہ بن شعبہ۔ تب اس نے کہا: ’’أي غُدر! ألستُ أسعٰی في غدرتک‘‘ (صحیح بخاری:۲۷۳۴) ’’اے دھوکے باز! کیا میں اب تک تیرے دھوکے کے سلسلے میں کوشش نہیں کرتا رہا ہوں ۔‘‘ اور مسنداحمد کے الفاظ ہیں : ’’أي عدو اﷲ! ما غسلتُ عني سوء تک إلا بالأمس‘‘ ’’اے اللہ کے دشمن! تیری گندگی میں نے اپنے آپ سے کل ہی دھوئی ہے۔‘‘ (تاریخ الاسلام ازامام ذہبی: جلد۴/ ص ۱۱۸ و مابعد) اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے فیصلے بڑے عجیب ہیں کہ یہ مغیرہ حالت ِکفر میں اتنے ہٹ دھرم کہ کسی طرح اسلام قبول کرنے کے لئے راضی ہی نہیں ہورہے تھے۔ مگر مزاج کی انفرادیت اور حالات نے اُنہیں دربار رسالت میں پہنچا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ’رضی اللہ عنہم و رضواعنہ‘ کی خلعتِ فاخرہ سے بہرہ ور فرما دیا۔ ٭ یہی وہ جلیل القدر صحابی ہیں جو اس حدیث کے راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرنے کے بعد ((لا إلہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شئ قدیر، اللھم لا مانع لما أعطیت ولا معطي لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد)) پڑھا کرتے تھے۔ ٭ جرابوں پر مسح کرنے کی حدیث کے بھی یہی راوی ہیں ۔ ٭ فتح قادسیہ میں ایرانیوں کے سپہ سالار رستم سے گفتگو کرنے کے لئے اُنہیں ہی بھیجا گیا تھا اور پھر اُنہوں نے بڑی جرأت مندانہ گفتگو کی تھی۔ ٭ اور یہی وہ صحابی ہیں جن کی مونچھیں قدرے بڑھی ہوئی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کے ساتھ برابر کرکے زائد کاٹ دی تھیں ۔ ٭ مسند احمد میں ان سے تقریباً ۱۱۸/احادیث روایت کی گئی ہیں ۔ |