شاخ بنومالک کے لوگ بھی تھے۔ [خیال رہے کہ یہ عروہ بن مسعود وہی ہے جو صلح حدیبیہ میں اہل مکہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نمائندہ بن کر آیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تھی ۔] کہتے ہیں کہ الغرض ہمارا یہ وفد روانہ ہوگیا اور اسکندریہ جاپہنچا اور اتفاق سے شاہِ مصر مقوقس بھی اس موقع پر ساحلِ سمندر پر اپنی ایک مجلس برپا کئے ہوئے تھا۔ میں ایک کشتی پر سوار ہوکر ان لوگوں کے سامنے جاپہنچا۔ مقوقس نے مجھے دیکھا اور اجنبی محسوس کیا تو معلوم کروایا کہ یہ کون شخص ہے؟ میں نے اپنا تعارف اور اپنی آمد کا مقصد بتایا تو اُس نے حکم دیا کہ ان لوگوں کو گرجاگھر میں ٹھہرایا جائے اور خاطر تواضع کی جائے۔ پھر ہمیں باریابی کا موقعہ دیا اور ملاقات کے لئے بلایا گیا۔ ہمارے وفد کا سردار بنومالک میں سے تھا۔ بادشاہ نے سردار کو اپنے پاس بٹھایا اور ہمارے متعلق بھی معلومات حاصل کیں ، کہ آیا یہ لوگ تمہارے قبیلہ بنی مالک ہی سے ہیں ؟ اس نے کہا کہ ہاں میرے ہی قبیلے کے ہیں سوائے اس مغیرہ بن شعبہ کے۔ چنانچہ مجھے اس موقع پر کوئی اہمیت نہ ملی۔ بادشاہ اپنے تحائف پاکربہت خوش ہوا اور پھر اس نے بھی بدلے میں ان لوگوں کو انعام و اکرام سے نوازا، مگر مجھے بہت معمولی تحفہ دیا گیا۔ ہم دربار سے نکلے تو سب لوگ بہت خوش تھے اور پھر وہ اس علاقے سے اپنے اہل و عیال کے لئے تحفے تحائف خریدنے لگے اور ان میں سے کسی نے میری کوئی دل داری نہ کی اور مجھے کچھ نہ دیا۔ بالآخر ہماری واپسی شروع ہوئی۔ ان لوگوں نے اپنے مال میں شراب بھی خریدی تھی جو وہ راستے میں پیتے پلاتے رہے۔ مگر میں اپنے دل میں بڑے پیچ و تاب کھاتا تھا، اور آنے والی صورتِ حال سے کسی طرح بھی مطمئن نہ تھا کہ یہ لوگ قبیلے میں جاکر اپنی بڑائی کا اظہار کریں گے کہ ہمارا اس طرح اِکرام ہوا اور یہ یہ انعام و اعزاز ملا اور ان کے مقابلے میں میری ناقدری ہوگی۔چنانچہ میں نے اپنے دل میں یہ ٹھان لی کہ ان کا کام ہی تمام کردوں گا۔ پھر ایک منزل پر پڑاؤ ہوا، سب لوگ کھانے پینے کے بعد شراب پینے کی تیاری کرنے لگے تو میں نے ظاہر کیا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں اور بیمار ہوں ۔ سر میں درد کا بہانہ بنا کر میں نے اپنے سر پر سخت کرکے کپڑا لپیٹ لیا اور کہا کہ میں شراب نہیں پیؤں گا، البتہ تمہیں پلاتا ہوں ۔ پھر میں اُنہیں |