یادِ رفتگاں ڈاکٹر قاری محمد طاہر٭ مولانا عبدالغفار حسن رحمۃ اللہ علیہ ؛ اِک مردِ خود آگاہ مولانا عبدالغفار حسن صاحب کو ہم نے بہت قریب سے تو نہیں ، البتہ قریب قریب سے بہت دیکھا ہے۔ ان کی علمی صحبتیں اُٹھانے کی سعادت بھی ملی۔ ان کی نشست و برخاست کا مشاہدہ بھی کیا۔ بہت سے علمی اجلاسوں میں ان کی گفتگو کو سنا اور ان کے علم سے بہت کچھ حاصل کیا۔ رنگ پختہ، میانہ قد، درمیانی داڑھی، موٹی آنکھیں جن میں عالمانہ وجاہت کے ساتھ مؤمنانہ رُعب بھی جھلکتا تھا۔ ماتھے پر بارگاہِ الٰہی میں دیے گئے سجدوں کے نشان نے چہرے کو مزید نورانی کردیا تھا۔ پہلی نظر دیکھتے ہی لگتا کہ اسلام کے صدرِ اوّل کے اکابرین میں سے ہیں ، البتہ قدرت نے پیدا اَب کیا ہے۔ شعر کی زبان میں بات کریں تو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مصرعہ عنگہ بلند ، سخن دل نواز جاں پُرسوز ان پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ حقیقت میں وہ مردِ خود آگاہ تھے اور مقولہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَف رَبَّہٗ کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ عموماً قمیص کے ساتھ کھلے پائینچوں کا پاجامہ زیب ِتن کرتے۔ اپنی چال میں ﴿وَالَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلی الْاَرْضِ ھَوْنًا﴾ کا خاص خیال رکھتے۔ بات نپی تلی اور با مقصد ہوتی تھی۔ ترکِ لایعنی زندگی کا اُصول تھا۔ آپ۱۹۱۳ء میں ہندوستان کے ضلع مظفر نگر میں پیداہوئے۔ یہ وہی ضلع ہے جس میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت نے تین سو برس قبل جنم لیا تھا۔ جن کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر ہندوستان میں خاندانِ ولی اللہ نہ ہوتا تو برصغیر میں مسلمان ناپید ہوجاتے۔ مولانا عبدالغفار حسن رحمۃ اللہ علیہ کا خمیر بھی اسی سرزمین سے اُٹھا۔ اُنہوں نے بھی اپنی زندگی کا ہدف ________________ ٭ مدیر ماہنامہ التجوید ، فیصل آباد |