Maktaba Wahhabi

53 - 111
قانون وقضا حافظ صلاح الدین یوسف دوسری /آخری قسط خواتین ایکٹ کے عواقب و مضمرات زیر نظرمضمون محترم حافظ صاحب حفظہ اللہ نے چند ماہ قبل ادارۂ محدث کو اشاعت کے لئے دیا تھا جس میں گذشتہ برس پاس ہونے والے تحفظِ حقوق نسواں بل کے خطرناک پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ آج ہم بحیثیت ِقوم وملت جن مسائل کا شکار ہیں ، اس تک پہنچنے میں ہماری ماضی کی المناک غلطیوں کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔اس مضمون کو پڑھتے جائیے اور اپنے قومی اعمال نامے پر شرماتے جائیے کہ جس قوم نے اپنے ربّ اور دین کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا ہو، اس کو کیونکر دنیا میں عزت وامان حاصل ہوسکتی ہے؟ اس موقع پر یہ بھی یاد رکھئے کہ اس قانون کا بنیادی ڈرافٹ پیپلز پارٹی کا ایک سیا ہ کارنامہ ہے۔روزِ قیامت نافرمانوں کو قرآن کی یہ وعید یاد ر ہنی چاہئے: ﴿یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِہِمُ الاَرْضُ وَلاَ یَکْتُمُوْنَ اللّٰه حَدِیْثًا﴾ (النساء:۴۲) اس دن ربّ کے منکر اور رسول کے نافرمان یہ خواہش کریں گے کہ کاش آج ان بداعمالیوں کا سامنا کرنے کی بجائے زمین ان پر برابر کردی جائے، اور وہ اللہ سے ایک برا عمل بھی چھپا نہ پائیں گے۔‘‘ ح م یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے مغربی آقایانِ ولی نعمت نے حدود آرڈیننس کی تنسیخ اور اس کی جگہ نئے ترمیمی قانون کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ اس پر نہایت مسرت کااظہار کیا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ وغیرہ کے مبارک بادی اور آشیربادی کے پیغامات اخبارات میں شائع ہوچکے۔ اس سلسلے میں جسٹس خلیل الرحمن خان کے مضمون کا ایک حصہ بھی بڑا چشم کشا ہے جو روزنامہ ’نوائے وقت‘ لاہور میں چارقسطوں میں شائع ہوا ۔ جسٹس صاحب موصوف لکھتے ہیں : ’’تحفظ ِحقوقِ نسواں ایکٹ کے تحت جس طرح شادی کا اسلامی اور قانونی تصور مسخ کیا جارہا ہے، اسی طرح خاندانی نظام اور قانونِ وراثت میں ناجائز مداخلت کا دروازہ کھول دیا گیاہے۔ اس ایکٹ کو پارلیمان سے منظور کرانے کا پس منظر کیاہے؟ حکومتی حلقے اصرار سے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دور رَس تبدیلیاں عورتوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کے حقوق کے حصول کو یقینی بنانے اور قوم و ملک کے بہترین مفاد میں کررہے ہیں ۔ یہ تبدیلی نہ تو مغرب کے کلچر کی
Flag Counter