تقلیدہے اورنہ ہی یہ مغربی ایجنڈے کی پیروی ہے۔ قارئین بہرحال جانتے ہیں کہ بہت سی این جی اوز نے چند سال سے ڈالر کمانے کے لئے اسلامی قوانین کے خلاف کئی اداروں کی معاونت سے ایک طوفان برپا کررکھا تھا۔اس میں اس سال الیکٹرانک میڈیا بھی شامل کیا گیا۔ یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ ایک صد ملین ڈالر بالادست قوت اسلامی قوانین کے خلاف مہم پر خرچ کررہی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ ایک ٹی وی چینل نے ہربڑے شہر میں لمبے چوڑے بورڈ اور ہورڈنگ لگوائے۔ ٹی وی پر حدود قوانین پر پروگرام پیش کرنے سے پہلے جن پرلکھاتھا ’ذرا سوچئے‘… بھاڑ میں جائیں مشرقی اقدار، اسلامی عفت اور شرم و حیا کی روایات، اور ایکٹ کے نفاذ کے بعد اسی چینل پر سکرپٹ چلائی جاتی ہے:’سوچنے کا شکریہ‘ مبارک ہو پارلیمان کے ممبران کو جن کے ووٹ سے قانون منظور ہوا اور مغرب کے ایجنڈا میں دیے گئے کام (Job) کی تکمیل ہوئی کیونکہ امریکہ کے اخبارات، ان کے کارپردازان اور تھنک ٹینک اس کام کی تکمیل پر از حد خوش ہیں ۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بیوروآفس آف ڈپلومیسی اورہیومن رائٹس و لیبر کی مؤرخہ ۸/نومبر ۲۰۰۵ء کو جاری شدہ رپورٹ اس معینہ کام (Job) کے بارے میں بہت کچھ واضح کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں درج ہے: "As part of its education reform Initiatory the U.S Govt. continued to help the Education Ministry revise its curriculum, including eliminating the teaching of religious Intolerance. Embassy Officials remained engaged with all parties involved in the Madrassah reform to encourage similar changes. Embassy Officials pressed Parliamentarians and the Government to revise blasphemy laws and Hadood Ordinance to minimise abuses and raised concerns with Government Officials and religious leaders over growing rhetoric against Ismaili followers of Aga Khan and sectarian strikes in the Northern Areas." ’’تعلیمی اصلاحات کی ابتدائی کوششوں کے طور پر امریکی حکومت نے نصاب میں ترمیم کے |