Maktaba Wahhabi

55 - 111
لئے وزارتِ تعلیم کی امداد جاری رکھی، اس میں مذہبی عدم رواداری کی حامل تعلیمات کا نصاب سے اِخراج بھی شامل تھا۔امریکی سفارت خانے کے حکام نے مدارس کے نصاب میں بھی ایسی ہی تبدیلیاں لانے کے لئے تمام ذمہ داران سے مسلسل رابطے کا کام سر انجام دیا۔ سفارت خانے کے حکام نے ارکانِ پارلیمنٹ اور حکومت پر زور دیاکہ توہینِ رسالت آرڈیننس اور حدود آرڈیننس کے غلط استعمال کو کم سے کم کرنے کے لئے ان میں ترامیم کی جائیں ۔ اُنہوں نے سرکاری حکام اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں ا ُنہیں اپنی اس تشویش سے آگاہ کیا کہ شمالی علاقہ جات میں آغا خان کے اسماعیلی پیروکاروں کے خلاف جذبات بھڑکائے جارہے ہیں اور وہاں فرقہ پرستی کے ہنگامے زوروں پر ہیں ۔‘‘ اس تیرہ صفحات پر مکمل رپورٹ میں تعلیمی نصاب کی تشکیل نو اور تشہیر،قادیانی اصحاب و دیگر اقلیتوں ، اسماعیلی پیروکاروں سے سلوک اور مدارس کے نصاب میں تبدیلی کے بارے میں امریکی گورنمنٹ کی کوشش، تحریک اور تجاویز اورامریکہ کے سفارتکاروں کی ان معاملات میں حکومت پاکستان کے افسروں اور وزارتِ تعلیم اور وزارت مذہبی اُمور کوترغیب اورمعاونت کی تفصیل درج ہے۔ رپورٹ کے آخر میں من جملہ باتوں کے جو اختتامی ریمارکس دیے، وہ قابل توجہ ہیں : "Chief concerns during this reporting period included the blasphemy laws, the Hadood Ordinances, curriculum reform in public education and madrassah education. Systems, treatment of Ahmedies community, sectarian violence and growing social presure on Ismaill followers of Aga Khan ... The U.S Govt. continued to raise concerns in formally about the abuse of the blasphemy laws Hadood Ordinances with Govt. parliamentarians and Officials. Embassy Officials participated in a number of seminars that the NGO's organized to discuss these issues...... The new legislation that the Govt. enacted in January 2005 represented an important positive step in this
Flag Counter