Maktaba Wahhabi

56 - 111
direction. As a part of its over all public education reform program valued at $ 100 million (5.8 Billion Rupees). The United States provided substantial financial support to the Govt's curriculum reform initiative. which included the teaching of religious intolerance. ’’مذکورہ رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں امریکی سفارتی حکام نے زیادہ تر توہین رسالت آرڈیننس، حدود آرڈیننس، تعلیم عامہ اور مدارس کی تعلیم، احمدی برادری سے سلوک، فرقہ ورانہ تشدد اور آغاخان کے اسماعیلی پیروکاروں پر روز افزوں سماجی دباؤ کے بارے میں تشویش ظاہر کی۔ امریکی حکومت کے اہلکاروں نے پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ کے ارکان اور حکام سے رسمی ملاقاتوں میں توہین رسالت قوانین اور حدود قوانین کے غلط استعمال بارے اپنی تشویش کااظہار کیا۔ سفارت خانے کے حکام نے کئی سیمیناروں میں شرکت کی جو این جی اوز نے ان مسائل پر بحث کرنے کے لئے منعقد کئے۔ حکومت نے جنوری ۲۰۰۵ء میں جو نئی قانون سازی کی، اس میں بھی اس سمت میں ایک اہم قدم اُٹھایا گیا۔امریکہ نے اپنے آل پبلک ایجوکیشن ریفارم پروگرام کے ایک جزو کے طور پر جس کی مالیت ۱۰ کروڑ ڈالر (۸ء۵ ارب روپے)تھی، حکومت ِپاکستان کے نصابی اصلاحی اقدامات کے لئے خاطر خواہ مالی امداد فراہم کی، جس میں مذہبی عدم رواداری کی تعلیم (کے سدباب کے لئے دی گئی امداد بھی) شامل تھی۔‘‘ اس کے بعد رپورٹ میں مدرسہ ریفارمز پروگرام کے بارے میں جو نتائج حاصل کئے گئے، ان کاذکر ہے۔ مدرسہ ریفارم میں امریکی حکومت کا دباؤ، کردار اورمالی معاونت ایک الگ مضمون ہے ؛ وہ بحث اور اس کی تفصیل کسی اور وقت کے لئے اُٹھائے رکھتے ہیں ۔ سب سے پہلی بات کہ کسی آزاد اور باوقار قوم اور حکومت کے لئے اس طرح ڈکٹیشن لینا اور امریکی سفارتی عملہ کا اس حد تک دخل دینا کہاں تک جائز ہے۔ ہمارے ملک اور ہماری قوم کے لئے نصابِ تعلیم کیاہونا چاہئے اور ہمارے قوانین کیاہونے چاہئیں ، یہ ہمارا اندرونی اور ذاتی مسئلہ ہے اور ہمیں بتایا بھی یہی جاتاہے کہ یہ سب کچھ ہم کسی دباؤ کے تحت نہیں بلکہ خود اپنے قومی اور ملی مفاد میں کررہے ہیں لیکن ان سب رپورٹوں اور غیر ملکی اخباروں میں امریکی
Flag Counter