Maktaba Wahhabi

100 - 111
ولی اللّٰہی افکار ہی کو ٹھہرایا۔ بوقت ِوفات آپ کی عمر ۹۴ برس کے لگ بھگ تھی۔ اگر ماہ و سال کو قمری حوالے سے ماپیں تو عمر ۹۶ برس سے متجاوز ہوتی ہے۔ گویا آپ کا زمانۂ حیات ایک صدی پر محیط ہے۔ اس سارے عرصہ میں دینِ متین کو غالب دیکھنے کی تڑپ آخر دم تک قائم رہی اور بساط کے مطابق جذبۂ عمل بھی متحرک رہا۔ آپ نے تقسیم ہند اور تشکیلِ پاکستان سے قبل دارالحدیث، دہلی سے درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور اور لکھنؤ یونیورسٹی بھارت سے مولوی فاضل اور ادیب فاضل کی اَسناد حاصل کیں ۔ اس طرح اپنے علم کوجدید وقدیم طرز ِ تعلیم سے دو آتشہ کیا۔ کچھ عرصہ جامعہ رحمانیہ بنارس میں تدریسی فرائض سرانجام دیے۔ لائل پور میں جامعہ سلفیہ کا قیام عمل میں آیا تو انتظامیہ آپ کی خدمات اس ادارے کے لئے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ پھر کئی برس یہاں خدمات سرانجام دیں ۔ مولانا عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ اشرف علم اور اہل علم کے شناور تھے۔ اُنہوں نے وسیع رقبہ پر جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ قائم کیا تو مولانا عبدالغفار حسن کو دینی اور فکری ہم آہنگی اور اشتراکِ ہدف کے سبب اپنے ادارے میں لے آئے۔ آپ کو ۱۸ برس تک جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تدریسی فرائض سرانجام دینے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ آپ کو یہ سعادت عربی زبان پر عبور اور حب ِ قیام مدینہ کے سبب حاصل ہوئی۔ علم کسی کی میراث نہیں ! یہ مسلمانوں کا اجتماعی ورثہ ہے جو محنت کے سبب اپنا مقام ومحل تبدیل کرتا ہے۔ مولانا عبدالغفار حسنؔ لباس سے عجمی لیکن تکلم کے ناطے عرب لگتے تھے۔ بے تکان عربی بولتے، کسی کو عجمی ہونے کا گمان تک نہ ہوتا اور مخاطب عرب نژاد ہی خیال کرتا۔ حقیقت کھلتی تو حیران ہوتا اور پریشانی کا اظہارکرتا تھا۔ اسی حوالے سے ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ جب میرا تقرر مدینہ یونیورسٹی میں ہوا تو ایک عرب شیخ سے علیک سلیک ہوئی۔ ظاہری بودوباش سے اس نے غالباً آپ کو جامعہ کے عملہ صفائی وغیرہ کا خادم خیال کیا۔ تو پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں کیا کرتے ہو؟ مولانا نے فرمایا: میرا یہاں تقرر بطورِ استاد کے ہوا ہے۔ عرب شیخ یہ سن کر سٹپٹا اُٹھا۔ بڑبڑاتے ہوئے کہنے لگا : یا أسفا یا عجبا ! اب عربوں کو عربی بھی عجمی پڑھائیں گے۔
Flag Counter