Maktaba Wahhabi

101 - 111
آپ مسلکاً اہل حدیث تھے لیکن جذبہ محرکہ دین کا غلبہ اور دین کی آبیاری ہر شے پہ غالب تھا۔ اس ہدف کے حصول کے لئے آپ ہر مسلک کے لوگوں سے بھرپور تعاون کرتے۔ موجودہ قومی اسمبلی میں حزب ِ اختلا ف کے قائدمولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود وزیراعلیٰ سرحد ہوئے تو خوشی کا اظہار کیا۔ جب مفتی صاحب کا انتقال ہوا تو مولانا بہت مغموم تھے۔ کبھی کبھی فیصل آباد کے منشی محلہ کی مسجد میں نمازِ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرماتے۔ مفتی محمود کے انتقال کے بعد غالباً پہلا جمعہ آپ نے اسی مسجد میں پڑھایا تو پوری تقریر میں مفتی محمود کے سانحۂ ارتحال کا تذکرہ بہت تاسف کے ساتھ کیا۔ آپ کی یہ تقریر راقم نے خود سنی۔ پاکستان میں جنرل محمد ضیاء الحق کا دور اسلامی خدمات کے حوالے سے بہت معروف ہے۔ آپ مرحوم ضیاء الحق کی کوششوں کو سراہتے اور برملا اظہارِ تحسین بھی فرماتے تھے۔ ضیاء الحق کی شہادت کے بعد تعزیتی اجلاس میں آپ نے مرحوم کے محاسن کا مفصل ذکر کیا اور فرمایا: میں نے ان کی شہادت سے چند روز قبل خواب دیکھا کہ میں سر پر ٹوپی اوڑھے ہوئے ہوں کہ اچانک میری ٹوپی سر سے اُتر گئی۔ بیدار ہوا تو بے چینی محسوس کی۔ دل نے کہا: کوئی بڑا سانحہ پیش آنے والا ہے۔ شاید مسلمان کسی بڑی شخصیت کی سرپرستی سے محروم ہونے والے ہیں کہ اچانک جنرل محمدضیاء الحق کی حادثاتی موت کی خبر آگئی۔ پاکستان میں شہیدمحمد ضیاء الحق کا زمانہ آیا تو ان کی نظر بھی مولانا پر پڑی۔ ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے حوالے سے آپ کو اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت پیش کی جسے آپ نے جذبۂ خدمت ِدین کے حوالے سے قبول کیا اور ۹ برس تک اس ادارے کی خدمت کرتے رہے۔ دین کو ’غالب علیٰ کل غالب‘ دیکھنے کا جذبہ ان کو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی قربت میں لے گیا۔ کیونکہ کسی بھی مقصد کے حصول کے لئے اجتماعی جدوجہد زیادہ بارآور ہوتی ہے۔ آپ جماعت اسلامی کے رُکن ہوئے۔ کام کی لگن، ذوقِ محنت اور جہد ِمسلسل کو سب نے سراہا۔ حتیٰ کہ آپ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے انتہائی بااعتماد ساتھیوں میں شامل ہوگئے۔ آپ ۱۹۴۱ء میں جماعت ِاسلامی میں شریک ہوئے۔ آپ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو سیالکوٹ میں جماعت ِاسلامی کا امیرمقرر کیا۔ ۱۹۵۳ء میں چلنے والی
Flag Counter