Maktaba Wahhabi

102 - 111
تحریک ِختم نبوت میں بھی حصہ لیا اور تقریباً گیارہ ماہ جیل میں بھی رہے اور ناموسِ رسالت کے لئے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ سارقانِ ختم نبوت کے خلاف چلنے والی تحریک کے سربراہ برصغیر کے نامور خطیب، تحریک آزادی کے نڈر سپاہی، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ چونکہ مسئلہ ختم نبوت کا تھا، قائد ِتحریک کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باوجود مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریک میں حصہ ڈالا اور ’مسئلہ قادیانیت‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ بس اس کتاب کے لکھنے کی پاداش میں دھر لئے گئے۔ پنجاب کے علاقہ (لاہور) میں جزوی مارشل لاء لگا، فوجی عدالت قائم ہوئی۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ پر فردِ جرم عائد کی گئی : ’’یہ شخص ملک کا باغی ہے۔ باغی ہی نہیں بلکہ ملک کے نوجوانوں سے لے کر بڑے بوڑھوں کو بغاوت پر آمادہ کرتا ہے۔ اس کی لکھی کتاب’مسئلہ قادیانیت‘ بغاوت کا سب سے بڑا دستاویزی ثبوت ہے۔‘‘ کہتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے۔ ممکن ہے، یہ کہاوت درست ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ مارشل لائی قانون تو بالکل اندھا ہوتا ہے۔ اپنے اندھے پن کی تعبیر روشن خیالی اور اعتدال پسندی سے کرتا ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کومارشل لاء کی عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی۔ آپ کو پابچولاں کرکے کراچی جیل بھجوایا گیا جہاں آپ کو کوٹھی اَلاٹ ہوئی۔ کوٹھی دو طرح کی ہوتی ہے: ایک کوٹھی وہ جسے مالدار لوگ بڑی محبت سے خوبصورت انداز میں تعمیر کراتے ہیں ۔ آسائش کی سہولتیں اس میں مہیا کرتے اور آرام سے رہتے ہیں ۔ دوسری کوٹھی جیل میں ہوتی ہے۔ یہ ایسے انسانوں کو اَلاٹ ہوتی تھی جنہیں مارنا مقصود ہوتا۔ مولانا کو یہی دوسری کوٹھی اَلاٹ ہوئی۔ اسے اصطلاح میں کوٹھی لگانا کہتے ہیں ۔ اس طرح مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ جیل میں کوٹھی لگا دیے گئے جو بعد میں بین الاقوامی دباؤ کے تحت باعزت رہائی میں بدل گئی۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی عدمِ موجودگی میں جماعت کی امارت مولانا عبدالغفار حسن رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد ہوئی۔ یہ اِعزاز، یہ منصب آ پ کی عظمت اور علو ِمرتبت کی دلیل ہے۔ اس ہیجانی دور میں جماعت کی اِمارت آسان کام نہ تھا مگر مولانا عبدالغفار حسن نے یہ مشکل کام نہایت احسن
Flag Counter