طریقہ سے نبھایا۔ جماعت کے جوان اور بپھرے خون کو کنٹرول کیا اور حکمت و موعظۂ حسنہ کے ساتھ ساتھ جدالِ اَحسن کی مثالیں قائم کیں ۔ پھر بعض معلوم اور نامعلوم اسباب کی وجہ سے آپ نے ۱۹۵۷ء میں جماعت ِاسلامی سے تو علیحدگی اختیار کرلی لیکن مختلف انداز سے دین کی خدمت میں مصروف رہے۔ جماعت میں شمولیت اور جماعت سے علیحدگی کے حوالے سے ایک اہم واقعہ کا تذکرہ اس جگہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد میاں طفیل محمد امیر ہوئے۔ ان کے بعد اِمارت کا سہرا محترم قاضی حسین احمد کے سر سجا، جو اَب تک موجود ہے۔ قاضی صاحب سیاسی جدوجہد کے آدمی ہیں ۔ان کی امارت میں جماعت کے مزاج میں کافی تبدیلی آگئی۔ پرانے لوگوں کے ساتھ جوان خون بھی جماعت میں خوب خوب شامل ہوا۔ اسی جوان خون کی وجہ سے جماعت میں ہنگامہ خیزی، نعرہ بازی، ہاؤ ہو، قاضی آوے ای آوے کا غلبہ ہوگیا۔ شب بیداریاں ، آہ سحرگاہی، سسکیوں ، گریہ وزاری اور احتساب کی وہ روایت متاثر ہوئی جس کی طرح مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دور میں ڈالی تھی۔ اس کی بجائے نعرہ بازی کا کلچر پروان چڑھا جو پیپلزپارٹی اور لادین جماعتوں کے کلچر سے میل رکھتا تھا۔ مولانا عبدالغفار حسن اگرچہ جماعت سے علیحدہ ہوچکے تھے، تاہم اس صورت حال کو دیکھ کر کڑھتے تھے، چنانچہ ان سے رہا نہ گیا۔ اُنہوں نے اس دور میں درد بھرا مضمون لکھا جو مختلف جرائد میں شائع ہوا۔ آپ نے لکھا کہ جب مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی سزائے موت معاف ہوئی تو مولانا کراچی سے بذریعہ ٹرین لاہور تشریف لانے والے تھے۔ امارت کی ذمہ داری چونکہ میرے سپرد تھی، جماعت کے ساتھیوں نے مولانا کے استقبال کے لئے لاہور ریلوے اسٹیشن پر جانے کا پروگرام بنایا، میں نے اجازت دے دی۔ اس دور میں جماعت کا نظم مثالی تھا۔ تمام کارکن گاڑی آنے کے وقت لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ ترتیب سے قطاروں میں کھڑے ہوئے، نہ کوئی شور نہ شرابا، نہ بے ہنگم بھیڑ۔ اسی دوران ایک نوجوان قطار سے نکلا اور میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ کہنے لگا میری ایک درخواست ہے، اگر آپ قبول فرمائیں ۔ میں نے تفصیل پوچھی۔ کہنے لگا: میں مولانا کی آمد پر ایک نعرہ لگانا چاہتا ہوں ۔ میں نے جواباً کہا: ہماری جماعت عمل پسند ہے، نعروں پر یقین نہیں رکھتی اورنہ ہی ہمارے نظم میں اس کی گنجائش |