موجود ہے۔ اس نوجوان نے بات سنی اور واپس اپنی قطار میں جاکر کھڑا ہوگیا۔ ابھی گاڑی پہنچنے میں کچھ وقت تھا۔ وہ نوجوان پھر قطار سے نکل کرمیرے سامنے آگیا اور انتہائی لجاجت سے کہنے لگا: میرا دل بہت مچل رہا ہے، میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں ۔ براہِ کرم مجھے ایک نعرہ لگانے کی اجازت دے دیجئے۔ میں نے اس نوجوان کی کیفیت کو دیکھا تو پوچھا۔ کیانعرہ لگاؤ گے؟ اس نے کہا کہ بس نعرۂ تکبیر لگاناچاہتا ہوں ۔ میں نے اس نوجوان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اسے ایک نعرہ لگانے کی اجازت دے دی اور کہا : صرف ایک ہی مرتبہ نعرہ لگانے کی اجازت ہے۔ وہ بولا: حکم کی تعمیل ہوگی، بس ایک ہی مرتبہ نعرہ لگاؤں گا۔ وہ نوجوان بہت خوش ہوا اور واپس اپنی قطار میں چلا گیا۔ اتنے میں گاڑی پلیٹ فارم پر آکر رُکی۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ڈبے میں سے اُترے۔ ان کے اُترتے ہی نوجوان نے فرط ِ جذبات میں نعرہ بلند کیا، نعرۂ تکبیر ’اللہ اکبر‘ کی آواز گونجی اور خاموشی چھا گئی۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے تمام کارکنوں سے مصافحہ کیا اور کار میں بیٹھ گئے۔ آپ کے ساتھ میں اور میرا ایک اور ساتھی بھی کار میں موجود تھے۔ کار گھر پر جاکررُکی تومولانا سمیت ہم دونوں مولانا کے مہمان خانے میں بیٹھ گئے۔ مولانا نے بیٹھتے ہی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے پہلا سوال یہ پوچھا: نعرہ کس نے لگایا تھا؟ میں نے نام بتایا تو فرمانے لگے : نعرہ لگانے کی اجازت کس نے دی تھی؟ میں نے سرجھکا کر کہا کہ اجازت تو میں نے ہی دی تھی۔ اس کے بعد مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ خاموش ہوگئے۔ مولانا نے زبان سے کچھ نہیں کہا لیکن بہت کچھ بتا گئے جس میں تنبیہ بھی تھی اورناگرفتہ احتساب بھی۔ میں شرم سے پسینہ میں ڈوب گیا۔ مولانا آگے لکھتے ہیں کہ ایک وہ جماعت تھی، ایک یہ جماعت ہے کہ جلوس میں نت نئے نعرے مارے جاتے ہیں ۔ مولانا عبدالغفار حسن سنجیدہ مزاج رکھتے تھے اور سنجیدگی کے ساتھ اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے حامی تھے۔ اگرچہ مولانا نے تحریکوں میں حصہ لیا، تاہم مولانا علمی آدمی تھے۔ تحریکی مصروفیات کے ساتھ ساتھ آپ نے دین کی خدمت کے لئے قلم کا سہارا بھی لیا۔ ’عظمت ِحدیث‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جو علما کے حلقوں میں معتبر ٹھہری۔ معروضی حالات سے متاثر ہوکر مختلف موضوعی مضامین بھی آپ کے قلم سے نکلے جو علمی جرائد کی زینت بنے۔ پاکستان میں سارقانِ ختم نبوت کے گریبان کو سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے |