ساتھیوں نے ہاتھ ڈالا تو مولانا نے قادیانیوں پر علمی گرفت کو مضبوط کیا، اور اس فتنہ کا علمی محاسبہ کیا۔ کئی مقالات لکھے جو کتابچوں کی شکل میں شائع ہوئے اور مستقل اہمیت کے حامل ہیں ۔ آپ کے قلمی ورثہ میں ایک کتاب’انتخاب‘ کے عنوان سے ہے جس میں آپ نے ایسی احادیث کا انتخاب کیا جن کا تعلق مسلمانوں کی اجتماعی حیات کے ساتھ ہے۔ اس کتاب کو علمی حلقوں میں بہت قبولیت حاصل ہوئی اور اس کے بہت سے ایڈیشن شائع ہوئے۔ آپ کے قلم سے نکلا ایک اور کتابچہ ’دین میں غلو‘ کے عنوان سے بھی ہے جو مختصر ہونے کے باوجود بڑے نازک علمی مباحث پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے جو کتب لکھیں ان کے نام ہیں :اسلام میں سنت کا مقام، معیاری خاتون، حقیقت ِ دعا (اُردو بک ریویو، انڈیا بابت مئی جون۲۰۰۷ء) ان مضامین میں بصیرت بھی ہے، ندرت بھی۔ یہ جملہ مضامین آپ کا علمی ورثہ ہیں جو اہل علم کی بصیرت اور بصارت میں مستقل اضافہ کا سبب ہیں ۔ ان مضامین کی یکجائی، تدوین وترتیب ان کے صلبی ورثا کا فرض ہے۔ ورثہ صرف درہم و دینار ہی کا نام نہیں ، علمی کام بھی اس میں شامل ہے۔ اگر یہ ورثہ جمع٭نہ ہوا تو مولانا کا قرض بذمہ اہل علم باقی رہے گا۔ علم حدیث میں آپ کی سند ۳۳ واسطوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے۔ روایت حدیث کی اجازت دینے میں بہت زیادہ محتاط واقع ہوئے تھے۔ سچی طلب اور جذبۂ صادقہ دیکھتے اور طالب کو خوب پرکھ کر اِجازت مرحمت فرماتے تھے۔ مولاناعبدالغفار حسن مرحوم کا علمی مقام و مرتبہ بہت بلند تھا۔ عاجزی و اِنکساری علم کا خاصہ ہے، اس لئے یہ وصف بھی ان میں بدرجہ کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ شہرت و ناموری سے کوسوں دور ________________ ٭ مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام شعبۂ رسائل وجرائد ملک بھر میں دینی رسائل کا ممتازترین مرکز ہے جس میں ۵۰ سے زائد اہم دینی جرائد کے موضوعاتی اشاریے مرتب کئے گئے ہیں۔ اس شعبہ میں ممتاز اہل علم کی تمام تحریروں کی فہرستیں بھی تیار کی جاتی ہیں۔ مولانا مرحوم کے بڑے فرزند ڈاکٹر صہیب حسن مجلس ہذا کے اراکین میں شامل ہیں چنانچہ اِمسال مولانا کی وفات کے موقع پر اُن کی تشریف آوری کے دوران اُنہیں نہ صرف دینی رسائل میں مولانا عبدالغفار حسن کے تمام مطبوعہ مقالات کی فہرست مہیا کی گئی بلکہ ان تمام مضامین کی فوٹو کاپی بھی مہیا کردی گئی جس کو ڈاکٹر موصوف ترتیب وتدوین کے بعد شائع کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا کے فرزندگان کو اس علمی وراثت کو جلد شائع کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین! ح م |