کھنچتے تھے۔ علم و علما کی مجلس ہوتی تو بندھے چلے آتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال پر آپ کو وہ قلمی خراج نہ ملا جس کے آپ مستحق تھے۔ ایک مضمون اُردو بک ریویو دہلی میں چھپا۔ دو مضامین ’محدث‘ لاہورنے طبع کئے، ان میں سے ایک ان کے بیٹے ڈاکٹر صہیب حسن کا، دوسرا ان کے شاگرد حافظ ثناء اللہ مدنی کا ہے۔ ان کے علاوہ دینی جرائد میں کچھ اداریہ کی شکل میں مختصر تذکرے، حالانکہ مولانا اپنی علمی جلالت کے پیش نظر اہل قلم سے بہت زیادہ خراج کے مستحق تھے۔ مولانا عبدالغفار حسن اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ہر راہی ملک ِبقا کا کچھ نہ کچھ ترکہ ہوتا ہے جسے بعد والے تقسیم کرتے ہیں ۔ وراثت درہم و دینار کے ترکہ ہی کا نام نہیں ۔ علم بھی وراثت ہی ہے۔ فرق صرف تقسیم وراثت کے طریق کار کا ہے۔ درہم و دینار کی وراثت کے حصے بخرے مقررہ تناسب سے کئے جاتے ہیں ۔ کم ظرف اس پر جھگڑا بھی کرتے ہیں جبکہ وراثت ِعلمی ہر اِک کو بقدرِ ظرف بے حساب ملتی ہے۔ علما کا اصل ورثہ ان کاعلم ہی ہوتاہے۔ ہمای دانست میں مولانا کے تربیتی اَثر نے اولاد کے علمی ظرف کو خوب پروان چڑھایا اور خوب بڑھایا۔ آپ کی اولاد، ذکورواُناث سب اس علمی وراثت کے حامل ہیں ۔ اس میدان میں حظ وافر رکھتے ہیں ۔ ان پرفرض ہے کہ وہ عظیم باپ کی وراثت کے اَمین و قسیم ثابت ہوں ۔ ہمیں اُمید ہے کہ وہ مولانا مرحوم کے علمی ترکے کی حفاظت کریں گے۔ ان کی نایاب کتب کے ذخیرے کو ضائع ہونے سے بچائیں گے۔ نہ صرف بچائیں گے بلکہ اس میں اضافہ کی سبیل پیدا کریں گے جو مولانا کے لئے صدقہ جاریہ کا سبب ہوگا۔ ہمیں یہاں یہ بات کہنے سے بھی باک نہیں کہ مولاناکے علمی ذخیرے کو ایسے لوگوں سے بچانا بھی ضروری ہے جو کتاب کو فٹ پاتھ کی زینت بنا کر دام کھرے کرتے ہیں اور بعض کو رذوق ان کتب میں ٹڈی مار پوڈر اور چوہے مار گولیاں بیچنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مولانا کی نمازِ جنازہ کی امامت کے فرائض آپ کے صلبی وارث بڑے بیٹے ڈاکٹر صہیب حسن نے سرانجام دیے۔ آپ کے بقیہ چھ بیٹوں کے علاوہ دیگر اعزہ و اقربا اور کثیر متعلقین نے اس میں شرکت کی۔ برطانیہ کی مختلف مساجد میں آپ کی غائبانہ نمازِ جنازہ بھی ادا کی گئی۔ اللھم ارحمہ واغفرہ وادخلہ في رحمتہ |