اور ناداروں کا اس حد تک خیال رکھا ہے، افسوس کہ بعض کم سواد اُسے بھی سرمایہ داروں کا دین کہتے ہوئے نہیں شرماتے۔ ٭ ایک اور حدیث میں ہے کہ مؤمن وہ نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اورسو جائے اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہے : ((لیس المؤمن بالذي یشبع وجارہ جائع إلی جنبہ)) (مسندابو یعلی :۲۶۳۸) ’’وہ شخص مؤمن نہیں ہے جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا ہو۔‘‘ ٭ غریبوں اور ناداروں کی ضروریات پوری کرتے وقت امیروں کو ریاکار اور نمائش سے روکا گیاہے اور ہدایت کی گئی کہ اس حال میں خرچ کرو کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیاخرچ کیا ہے۔صحیح بخاری میں ہے کہ ((حتی لا تعلم شمالہ ما تنفق یمینہ)) (رقم:۶۶۰) ’’یہاں تک کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں نے کیا خرچ کیاہے۔‘‘ اَقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس سلسلے میں بعض جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال بھی ملتے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إن اللّٰه تعالی فرض علی الأغنیاء في أموالھم بقدر ما یکفی فقراء ھم فان جاعوا أو عروا وجھدوا فبمنع الأغنیاء وحق علی اللّٰه تعالیٰ أن یحاسبھم یوم القیامۃ ویعذبہم علیہ)) (محلّی از ابن حزم:۶/۱۵۸) ’’اللہ تعالیٰ نے دولت مندوں کے مال میں ناداروں کے لئے ایک حصہ لازمی طور پررکھا ہے۔ لہٰذا غریبوں کو حق حاصل ہے کہ اپنی بھوک اور برہنگی کو دور کرنے کے لئے دولت مندوں سے بقدرِ ضرورت مال حاصل کرکے رہیں ۔ایسے سرمایہ دار جو دوسروں کی ضروریات کا خیال نہ رکھیں ، اللہ تعالیٰ کاحق ہے کہ اُن سے قیامت کے روز باز پُرس کرے اور اُنہیں عذاب دے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ غریب اور نادار لوگ دولت مندوں کے مال میں سے اپنی ضروریات کے لئے مال حاصل کرسکتے ہیں ۔ اگر دولت مند رضا مندی سے اُن کا حق دیں تو بہتر ورنہ مسلم حکومت اُن سے زبردستی بھی لے کر دے سکتی ہے۔ |