٭ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ ایسے شخص پر رحم نہیں کرتا جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا: ((لا یرحم اللّٰه من لایرحم الناس )) (بخاری:۷۳۷۶ و مسلم:۲۳۱۹) ’’اللہ اُس پر رحم نہیں کرتا جو دوسرے لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔‘‘ اس حدیث کو نقل کرکے علامہ ابن حزم نے المُحلیٰ میں لکھا ہے کہ ومن کان علی فضلۃ ورأی المسلم أخاہ جائعا عریان ضائعا فلم یغثہ فما رحمہ بلا شک (ج۴/ص۱۷۵) ’’جس شخص کے پاس زائد از ضرورت چیز ہو اور وہ اپنے مسلمان بھائی کو بھوکا ننگا دیکھے مگر اُسے کچھ نہ دے تو اس نے بلا شبہ اس پرکوئی رحم نہیں کیا۔‘‘ ٭ اصحابِ صفّہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عام ہدایت دے رکھی تھی کہ ان کی ضروریات کا خاص خیال رکھیں ۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بہت اہم ہے جسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ ((من کان عندہ طعام اثنین فلیذھب بثالث،ومن کان عندہ طعام أربعۃ فلیذھب بخامس أو سادس)) (مسنداحمد:۱/۱۹۸) ’’جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو اُسے چاہئے کہ وہ تیسرے کو بھی لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو اُسے چاہئے کہ پانچویں یا چھٹے بھوکے فرد کو بھی اپنے ہاں لے جائے۔‘‘ اور یہ بھی احادیث و تاریخ سے ثابت ہے کہ اہل مدینہ جن میں انصار اور مہاجرین سب شامل تھے نے اصحابِ صفّہ کی تمام بنیادی ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کررکھا تھا، کیونکہ اُن کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات تھے۔ ٭ اسی سلسلے کی ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں کو بھی ہدایت فرمائی ہے کہ ہر شخص اپنے کھانے میں دوسرے کو بھی شریک کرلے۔ یہ گویا خوشحال لوگوں کے مال میں ناداروں کا حق ہوا۔وہ حدیث یہ ہے کہ ((طعام الواحد یکفي الإثنین)) (صحیح مسلم:۲۰۵۹) ’’ایک شخص کاکھانا دو کے لئے کافی ہے۔‘‘ گویاہر کھانا رکھنے والے کے کھانے میں بھوکے شخص کا حصہ ہے ۔جس اسلام نے غریبوں |