ضرورت مندوں اور پیدل لوگوں کو ان پر سوار ہونے کا موقع نہیں دیتے تو ان کی یہ سواریاں ’شیطان کی سواریاں ‘ ہیں ۔ دوسرے یہ فرمایا کہ وہ مکانات جنہیں لوگ بلاضرورت محض دولت کی نمائش کے لئے بناتے ہیں اور اُن میں غریبوں کو رہنے کا حق نہیں دیتے تو وہ’شیطانوں کے گھر‘ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس طرح کے نمائشی مکانات نہیں تھے، لیکن آج ہمارے زمانے میں ایسے بہت سے ہیں ۔ ایک ہی شخص بلاکسی حقیقی ضرورت کے کئی شہروں میں اپنی کوٹھیاں اور مکانات بنا لیتا ہے اور نہ خود ان میں رہتا ہے، نہ کسی اور کو رہنے دیتا ہے۔ ٭ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ ((أطعمو الجائع وعودوا المریض و وفکوا العاني)) (صحیح بخاری :۵۶۴۹) ’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ ،بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کی رہائی کا بندوبست کرو۔‘‘ اس حدیث میں تین اُمور بیان فرمائے گئے ہیں :بھوکے کو کھاناکھلانا،بیمار کی عیادت کرنا، اور غلاموں کو آزادکرنا۔ بھوکے کو کھاناکھلانے کا حکم دیا گیا تو اس سے معلوم ہوا کہ صاحب ثروت لوگوں کے مال میں ناداروں اور بے کسوں کا حصہ رکھ دیا گیا ہے اور یہ حصہ پہنچانے کا اہتمام ضروری ہے۔ ٭ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ((والذي نفسی بیدہ لا یؤمن عبد حتی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ)) (بخاری:۱۴ و مسلم:۴۵) ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کوئی شخص ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘ گویا ایمان کا معیار یہ قرار پایاکہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند کرنا جو آدمی اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ جو مکان، لباس اور غذا ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں ، اُسی طرح کا مکان، لباس اور غذا ہمیں دوسروں کے لئے بھی پسند کرنا چاہئے اور اگر وہ مفلوک الحال ہیں تو یہ چیزیں ان کو مہیا کی جانی چاہیے۔ |