Maktaba Wahhabi

95 - 111
بصرہ یمینا وشمالا فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ((من کان معہ فَضْلُ ظَھْر فَلْیَعُدْ بہ علی من لاظھر لہ ومن کان لہ فضل من زاد فلیَعُدْ بہ علی من لا زاد لہ)) قال فذکر من أصناف المال حتی رأینا انہ لاحق لأحد منا في الفضل۔ ’’ ایک دفعہ جب ہم نبی کے ساتھ سفر میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی اونٹنی پر سوار ہوکر آیا، اس نے دائیں بائیں مڑ مڑ کر دیکھناشروع کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس کوئی زائد سواری ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی سواری اس شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس شخص کے پاس زائد کھانا ہو تو اسے ان لوگوں کو دے دینا چاہئے جن کے پاس کھانانہیں ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی بہت سی قسمیں گنوائیں یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ ہم میں سے کسی کازائد از ضرورت مال میں کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ (صحیح مسلم:۱۷۲۸) اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ زائد از ضرورت چیزیں اُس رفیقِ سفر کو دے دینی چاہئیں جو ان سے محروم ہے اور ضرورت مند ہے۔ چنانچہ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے مطابق یوں عمل فرمایا کہ سواروں کو حکم دیاکہ وہ پیدل لوگوں کو بھی باری باری اپنی سواری پر سوار کرائیں اور اسی طرح جن کے پاس زادِ راہ نہیں تھا، اُن کی خاطر سارا زادِ راہ جمع فرمایا تھا اور پھر ہر ایک میں برابر برابرتقسیم فرمایادیا۔ ٭ ایک اور حدیث میں ہے جو حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((تکون إبل للشیاطین وبیوت للشیاطین فأما إبل الشیاطین فقد رأیتھا یخرج أحدکم بجنیبات معہ قد أسمَنَھا فلا یعلو بعیرًا منھا ویَمرُّ بأخیہ قد انقطع بہ فلا یحملہ وأما بیوت الشیاطین فلم أرھا)) (ابوداؤد:۲۵۶۸) ’’کچھ اونٹ شیطانوں کا حصہ ہوتے ہیں ۔ کچھ گھر شیطانوں کا حصہ ہوتے ہیں ۔ شیطانوں کے اونٹ تو میں نے دیکھے ہیں کہ تم میں سے کوئی اپنے ساتھ بہت سی اونٹنیاں لے کرنکلتا ہے اور اُنہیں خوب موٹا تازہ کر رکھا ہوتا ہے اور ان میں سے کسی پرسواری نہیں کرتا اور وہ اپنے بھائی کے پاس سے گزرتا ہے جو بغیر سواری کے ہے، تو اسے اپنی اونٹنیوں پر سوارنہیں کرتا اور رہے شیطانوں کے گھر تو اُنہیں میں نے نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث میں دو اہم باتیں فرمائی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ جو لوگ زائد سواریاں رکھتے ہیں مگر
Flag Counter