Maktaba Wahhabi

92 - 111
متعلقہ احادیث ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور سنت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اغنیا کے مال میں غریبوں اور ناداروں کا حصہ ہوتا ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں : قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم :((إن اللّٰه عزوجل یقول یوم القیامۃ: یابن آدم! استطعمتُک فلم تطعمني قال: یا ربّ وکیف أطعمک؟ وأنت ربّ العٰلمین؟ قال: أما علمت أنہ استطعمک عبدي فلان فلم تطعمہ أما علمت أنک لو أطعمتہ لوجدت ذلک عندي۔یا ابن آدم! استسقیتک فلم تسقني قال: یا رب کیف أسقیک وأنت رب العٰلمین؟ قال استسقاک عبدي فلان فلم تسقہ أما انک لوأسقیتہ وجدت ذلک عندي)) (صحیح مسلم :۲۵۶۴) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل قیامت کے دن کہے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا، تو نے نہیں کھلایا۔ تو وہ کہے گا کہ اے میرے ربّ! میں تجھے کیسے کھلاتا جب کہ تو سب لوگوں کی پرورش کرنے والا ہے۔ اللہ کہے گا: کیا تجھے خبر نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا، لیکن تو نے اُسے نہیں کھلایا؟کیا تجھے خبرنہیں کہ اگرتو اسے کھلاتا تو اپنے کھلائے ہوئے کھانے کو میرے ہاں پاتا؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے مجھے نہیں پلایا، تو وہ کہے گا: اے میرے ربّ! میں تجھے کیسے پلاتا جبکہ تو خود ربّ العٰلمین ہے۔ اللہ کہے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا، لیکن تو نے اُسے پانی نہیں دیا، اگر تو اسے پانی پلاتا تو وہ پانی میرے ہاں پاتا۔‘‘ یہ حدیث ِقدسی اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ خاص طور پر اللہ کو اپنے غریب اور نادار بندے کتنے عزیز ہیں کہ ان کے حق کو اللہ نے اپنا حق قرار دیا ہے اور قیامت کے دن اس کی باز پُرس رکھی ہے۔ اس لئے بھوکے کو کھانا کھلانا اور پیاسے کو پانی پلانا بڑے اَجرو ثواب کا کام ہے، اس سے قربِ الٰہی حاصل ہوتاہے۔ اس طرح ہر محروم اور نادار کے لئے خوشحال لوگوں کے مال میں حصہ رکھ دیا گیا ہے : ﴿اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْن٭ فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ٭ وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ ٭ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ ٭ الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلاَتِہِمْ سَاہُوْنَ ٭ الَّذِیْنَ
Flag Counter