ہُمْ یُرَآئُ وْنَ ٭ وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ﴾ (سورۃ الماعون) ’’بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو آخرت کا انکار کرتا ہے۔ وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے، کسی مسکین کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا۔ تو ایسے نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو نماز سے غافل رہتے ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں اور کسی کوبرتنے کی معمولی چیز عاریتہ بھی نہیں دیتے۔‘‘ ٭ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ضمناً عام مسلمانوں کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ کسی یتیم کو نہ ڈانٹیں اور کسی سائل کو ہرگز نہ جھڑکیں بلکہ بھلے طریقے سے برتاؤ کریں اور رخصت کردیں : ﴿فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْھَرْ ٭ وَ اَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْھَرْ﴾ (الضحیٰ :۹، ۱۰) ’’تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی یتیم پر ستم نہ کریں اور کسی مانگنے والے کو ہرگز نہ جھڑکیں ۔‘‘ ٭ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أفضل الصدقۃ أن تشبع کبدًا جائعًا)) (شعب الایمان:۳۳۶۷) ’’بہترین صدقہ یہ ہے کہ تو کسی بھوکے کو پیٹ بھر کھلائے۔‘‘ ٭ گویا بھوکے کو کھانا کھلانا بہترین صدقہ ہے۔ یہ حدیث بھی ظاہر کرتی ہے کہ اغنیا کے مال میں ناداروں کا حق ہے۔ پھر وہ نادار اور محرومِ معیشت لوگ جو کسی کے سامنے دامنِ سوال نہیں پھیلاتے مگر حاجت مند ہوتے ہیں ، ان کے بارے میں دولت مندوں کو تاکید کی کہ اُن کی ضروریات کاخیال رکھیں : قال النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : ((لیس المسکین الذي یطوف علی الناس تردہ اللقمۃ واللقمتان والتمرۃ والتمرتان ولکن المسکین الذي لا یجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیتصدق علیہ ولا یقوم فیسأل الناس))(بخاری:۱۴۷۹ و مسلم:۱۰۳۹) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کے دروازے کا چکر لگاتا ہے اورلقمہ دو لقمے اور کھجور دو کھجور لے کرلوٹتا ہے ، مسکین وہ ہے جو اتنا مال نہیں رکھتا کہ اپنی ضروریات پوری کرے اور اس کی غربت کولوگ سمجھ نہیں پاتے کہ اسے صدقہ دیں اور نہ ہی وہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر ہاتھ پھیلاتا ہے۔‘‘ |