Maktaba Wahhabi

91 - 111
خرچ کرتے ہیں ، وہ کسی اجر و ثواب کے مستحق نہیں ہیں ۔ کیونکہ ریاکاری کا تعلق ایمان سے نہیں ہے بلکہ کفر و منافقت سے ہے : ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِئَآئَ النَّاسِ وَ لَا یُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْدًا لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ مِّمَّا کَسَبُوْا وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ﴾ (البقرۃ :۲۶۴) ’’اے ایمان والو! اپنے صدقات و خیرات کو برباد نہ کرو کسی پر احسان کرکے اور اُسے تکلف پہنچاکر۔ جیسے کوئی شخص لوگوں کو دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہے، اور اس پر زور کا مینہ برس کر اسے صاف کر ڈالے۔ اسی طرح ریا کاروں کا انفاق بھی کچھ حیثیت نہیں رکھتا اور اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘ ٭ یہ بھی ارشاد ہواکہ جو مالدار لوگ یتیموں مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے، وہ دولت کے حریص اور پجاری ہیں ، ایسے لوگوں کا دین و ایمان سے کوئی واسطہ نہیں : ﴿کَلَّا بَلْ لاَّ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ ٭ وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ ٭ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾ (الفجر :۱۷تا۲۰) ’’ہرگر نہیں بلکہ تم یتیموں کا خیال نہیں رکھتے اور نہ کسی مسکین کے لیے کسی کوکھاناکھلانے کی ترغیب دیتے ہو اور خود وراثت کا مال اکٹھا کرکے ہڑپ کرجاتے ہو اور مال سے بہت ہی محبت کرتے ہو۔‘‘ سورۂ ماعون میں ایسے شخص کو آخرت کا منکر کہا گیا جو من جملہ اور باتوں کے یتیموں کو دھکے دیتا ہے اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ پھر ریاکاروں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کے لئے بھی ہلاکت و بربادی کا انجام بتایا گیا جو دوسروں کو استعمال کی معمولی چیز عاریتہ بھی نہیں دیتے۔ ان قرآنی تعلیمات و احکامات کی روشنی میں یہ امر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اغنیاء کے مال میں غریبوں کا حق رکھا ہے جسے بہرصورت ادا ہونا چاہئے۔
Flag Counter