جن کو صحیح طور سے وہی خالق جانتا اور سمجھتا ہے جو ان قوانین کا مقنن اور واضع ہے۔ درحقیقت شریعت کے مقابلے میں دنیا کا کوئی بھی قانون پیش کرنا مخلوق کو خالق کے مقام ومرتبہ پر کھڑا کرنے کی ناپاک جسارت ہے۔ مندرجہ بالاچندایک اوصاف کو ہی دیکھ کر ایک منصف مزاج شخص کے لئے اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ الٰہی قانون ہی حقیقت میں وہ قانون ہے جو معاشرے کو تمام برائیوں سے پاک کرکے اس کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے متصف کرسکتا ہے اور صحیح طور سے اس کی تعمیر و ترقی کے نقوش متعین کرسکتا ہے۔ میں یہاں اسلامی قانون کے محاسن واوصاف کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی قانون پر تبصرہ کے لئے تجدد پسند حضرات کے محبوب مفسر مولانا امین احسن اصلاحی کے الفاظ مستعار لیتا ہوں : ’’اسلامی قانون اپنے روزِ اوّل ہی سے انسانی فطرت اور خدا کی دی ہوئی ہدایت پر مبنی ہے۔ اس میں خاندانوں اور قبیلوں کے رجحانات و تعصبات کو کوئی دخل نہیں ۔ رسوم و رواج اس میں اگر کوئی دخل رکھتے ہیں تو صرف ایک محدود گوشہ کے اندر رکھتے ہیں اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ وہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی ہدایت کے خلاف نہ ہوں ۔ اس کے ماضی اور حاضر میں گہرا رَبط ہے اورمستقبل میں بھی اس کی ترقی کے خطوط بالکل معین ہیں ۔ انسانی قانون عدل، مساوات اور رحم انسانیت کی جس منزل پر اب پہنچنے کی آرزو کررہا ہے، اسلامی قانون کا پہلا قدم وہیں سے اُٹھا ہے بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہیں ہوگا کہ اگر انسانی قانون اپنی اس معراجِ آرزو کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو جس دن اس کو یہ کامیابی حاصل ہوگی، اُسی دن وہ اسلامی قانون میں تبدیل ہوجائے گا۔‘‘ اسلامی شریعت ؛ پاکستان کا مقدر مذکورہ بحث میں جس اسلامی قانون کی بات کی گئی ہے، وطن عزیز پاکستان میں اس کے قیام کے لئے ایک ایسی قیادت کے برسراقتدار آنے کی ضرورت ہے جواللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون پر پوری طرح مطمئن ہو اور معاشرے کی برائیوں کو اچھائیوں سے بدل دینے کا عزمِ صمیم رکھتی ہو۔ اس کے برعکس جس قیادت کو سرے سے اسلامی قانون پر اعتماد ہی نہ ہو اور ذہنی مرعوبیت کی بنا پر برسرعام اس کی حدود کا مذاق اڑاتے ہوئے اس کی مقرر کردہ سزاؤں کو وحشیانہ قرار دیا جائے؛ ایسے لوگوں سے اس قسم کی نیک توقع رکھنا ہی عبث ہے۔ اس |