Maktaba Wahhabi

83 - 111
اس کا احترام جاتا رہے گا اور حالت وہی ہوجائے گی جس کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے : ؎ بڑھتا ہے ذوقِ جرم یہاں ہر سزا کے بعد! جبکہ اسلامی قانون ایسے تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہے جو شخصی و گروہی تعصب ومیلانات اور خواہش پرستی کی بنا پر قانون کو لاحق ہوتے ہیں ، کیونکہ یہ اس عادل و منصف ہستی کی طرف سے مقرر کردہ ہے جس سے ایک ذرے کے برابر بھی ظلم سرزد نہیں ہوتا: ﴿اِنَّ اللّٰه لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ﴾(النساء:۴۰) ’’بے شک اللہ ایک ذرّے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔‘‘ اورجس کا فضل تمام لوگوں پر بلا تفریق یکساں وسیع ہے: ﴿اِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ﴾ (النمل :۷۳) ’’بے شک تیرا پروردگار تمام لوگوں پر فضل والا ہے۔‘‘ اور جس کا فیصلہ اور قانون تغیر و تبدل سے پاک ہوا کرتا ہے: ﴿وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰه تَبْدِیْلًا﴾(الاحزاب :۶۲) ’’اور تو اللہ کے فیصلے میں ہرگز تبدیلی نہیں پائے گا۔‘‘ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی تمام ترعصمت کے باوجود اپنی طرف سے قانون بنانے کی اجازت نہیں ، قرآنِ مجید کی اس آیت پر غور کیجئے : ﴿اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا اَرَاکَ ﷲُ﴾ ’’یقینا ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے۔‘‘ (النساء :۱۰۵) 5. قوانین وضعیہ کا دامن زمان ومکان ہر دو اعتبار سے تنگ ہوتا ہے، ایک قوم کے لئے بنائے گئے قوانین خود ان کے اپنے واضعین کے بقول دوسرے معاشرے اور زمانے پر منطبق ہونے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں ۔ کیونکہ یہ کسی خاص گروہ اور علاقے کو پیش نگاہ رکھ کر ہی بنائے جاتے ہیں ، لیکن اسلامی قانون، جیسا کہ پیچھے قدرے وضاحت کے ساتھ ذکر کیا جاچکا کہ اس علیم و خبیر ذات کا قانون ہے جس کی تینوں زمانوں ماضی، حال اور مستقبل پر گہری نظر ہے، لہٰذا اس نے اس قانون میں ایسی لچک رکھی ہے کہ جو اس کو تمام زمانوں اور پوری دنیا کے لئے نافذ العمل ہونے کے قابل بناتی ہے۔ انسانی قوانین کے مقابلے میں شرعی قوانین کے محاسن و اوصاف حیطۂ شمار ہی سے باہر ہیں
Flag Counter