Maktaba Wahhabi

81 - 111
پر اہل عقل و دانش کے نزدیک بھی لوگوں کے بنائے ہوئے قانون کو ان کے خالق کے قانون کے مقابلے میں پیش کرنا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں ٹھہرتا بالخصوص جبکہ خود خالق کا اپنی اس مخلوق کے بارے میں اعلان ہے : ﴿وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ (بنی اسرائیل :۸۵) کہ ’’تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے۔‘‘ اور ﴿وَخُلِقَ الاِنْسَانُ ضَعِیْفًا﴾ (النساء:۲۷) ’’انسان کوپیدا ہی کمزور کیا گیا ہے۔‘‘ اس کے مقابلے میں اسلامی قانون کا من عنداللہ ہونا ہی بذاتِ خود ایک ایسی خوبی ہے جو اس کو بلندی اور عظمت کے ایک ایسے مقام پر لے جاتی ہے جہاں تک پہنچنا اس ضعیف انسان کی استطاعت اور طاقت سے ماورا ہے۔ 2. اسلامی قانون کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلامی قوانین کے ساتھ احترام اور تقدس کا ایک روحانی عنصر وابستہ ہے۔ اسلام جب کسی کام کو حرام قرار دے کر اس پر کسی سزا کا اعلان کرتا ہے تو سب سے پہلے اپنے ماننے والوں کو اچھی طرح یہ بات ذہن نشین کرواتا ہے کہ ان اَحکام کو مقرر کرنے والی وہ ذات ہے جو تیری جلوت اور خلوت کی تمام باتوں سے بخوبی واقف ہے۔ اگر تو اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تو ممکن ہے کہ تو اپنے جرم پر پردہ ڈال کر دنیوی سزا سے بچ جائے، لیکن بالآخر ایک نہ ایک دن تجھے اپنے اسی آقا و مولا کی طرف لوٹنا اور اپنی زیست کے تمام لمحات کا حساب دینا ہے۔ لہٰذا یہ تصور اور اللہ کا خوف ایک مسلمان کے دل پر ہر وقت ایک پہرے دار کی مانند چھایا رہتا ہے جو اس کو شرعی قوانین کے احترام پر مجبور کرتاہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ماعزاسلمی (دیکھئے صحیح بخاری: ۶۸۲۴، صحیح مسلم: ۱۶۹۴) اور غامدیہ عورت (مسلم: ۱۶۹۵) کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اعترافِ جرم اسی خوف اور ڈر کا نتیجہ تھا۔ لیکن اس کے بالمقابل انسانوں کے وضع کردہ کسی مجموعہ قانون کے ساتھ ایسی کسی خارجی قوت کا تصور موجود نہیں ہے جو لوگوں کو اس کے احترام پر اُبھارے او رتنہائی میں بھی ان کو جرم سے روکے اور خلاف ورزی کی صورت میں خود کو قانون کے حوالے کرنے پر مجبور کرے۔
Flag Counter