Maktaba Wahhabi

80 - 111
ہوں گے۔ مستقل رسالت اور ایسی شریعت جو شریعت ِاسلامیہ کو منسوخ کرنے والی ہو، لے کر نہیں آئیں گے۔ ‘‘ (شرح صحیح مسلم للنووی:۲/۱۹۰) اسی طرح سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالا حدیث ہی کے الفاظ ((فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر)) پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’صلیب کو توڑ ڈالنے اور خنزیر کو ہلاک کردینے کا مطلب یہ ہے کہ عیسائیت ایک الگ دین کی حیثیت سے ختم ہوجائے گی۔‘‘ (تفہیم القرآن: ج۴/ ص۱۵۵، ضمیمہ سورۂ احزاب) چنانچہ مذکورہ بحث سے جہاں یہ ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بطورِ فیصل کوئی نیا قانون یا ضابطہ لے کر نہیں آئیں گے بلکہ شریعت ِاسلامیہ کے مطابق ہی فیصلہ کرنے والے ایک حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہیں اس با ت کا بھی پتہ چلا کہ ربّ العالمین نے قیامت تک ہر زمان و مکان کے لئے اسلامی قانون ہی کو حتمی اور فیصلہ کن ضابطۂ حیات بنا کر نازل کیا ہے۔ اسی لئے اس خالق نے اپنی حکمت ِتامہ او رہمہ دانی کے تقاضے کے عین مطابق اس قانون میں ایسی لچک اور نرمی رکھی ہے کہ جو اس کو تمام اَدوار اور جگہوں پر نافذ العمل ہونے کے قابل بناتی ہے۔ وضعی قوانین کے مقابلے میں شرعی قوانین کی خصوصیات و امتیازات وضعی اور شرعی قوانین کے درمیان ادنیٰ درجے کی بھی مساوات اور برابری نہیں ہے۔ ایک صحیح العقیدہ اور سلیم الفکر مسلمان کو، جو قرآن و سنت ہی کو اپنا دستور ِ حیات اور معیارِ نجات مانتا ہو، اس بات پر مطمئن کرنے کے لئے اگرچہ قرآن و سنت کی واضح نصوص ہی کافی ہیں اور اس کو منوانے کے لئے مزیدکسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن چونکہ اس کے باوجود بعض ’جدت پسند‘ مسلمانوں کو اس بات پر اطمینان نہیں کہ صدیوں قبل تشکیل میں آنے والا نظامِ زندگی جدید دور پر منطبق ہوسکتا ہے، لہٰذا آئندہ سطور میں وضعی قوانین کے مقابلے میں شرعی قوانین کی چند بنیادی خصوصیات کا تذکرہ کیا جاتا ہے ؎ شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات! 1. وضعی قانون، انسان کی صنعت گری کا نتیجہ ہے۔ بالفرض اگر اس قانون میں اس کے علاوہ اور کوئی خامی نہ بھی ہو کہ اس کو مرتب کرنے والی خالق کے مقابلے میں مخلوق ہے۔ اس بنا
Flag Counter