تحریک انتہائی کسمپرسی کے عالم میں اپنا آغاز کررہی تھی۔ چنانچہ اسلام کے دورِ ابتدا ہی میں اس آیت کا نزول اس بات کی دلیل ہے کہ اسلا م کی بنیاد ہی اس تصور پر استوار کی گئی تھی کہ یہ ساری دنیا کے لئے دستور اور آئین بنے اور تمام لوگ اس کے پاکیزہ اور ہمہ گیر اُصولوں کے تحت ایک پرامن زندگی بسر کرسکیں ۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل ہی تمام انبیا کرام علیہم السلام سے اس با ت کا عہد لیا جاچکاتھا کہ تمہاری رسالت کے دور میں اگر نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوجائے تو تم پر اپنی شریعت و رسالت سے دستبردار ہوکر اس کی شریعت پر ایمان لانا اور پھر ’یہی نہیں بلکہ‘ اس کے معاون و مددگار بننا لازم ہے۔ چنانچہ ربّ العالمین کا ارشاد ہے : ﴿وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْن﴾ ( آلِ عمران :۸۱) ’’جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو اسی تعلیم کی تصدیق کرنے والا جو تمہارے پاس ہے تو تمہیں لازماًاس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی تصدیق کرنا ہوگی۔ پھر کہا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو او راس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ (ہاں ) ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔‘‘ مذکورہ بالا عہد اگرچہ انبیا کرام علیہم السلام سے لیا گیا تھا، لیکن جو عہد انبیا سے لیا گیا ہو وہ لامحالہ ان کے پیروؤں پر بھی عائد ہوتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ شریعت ِاسلامیہ کے مقابلے میں سابقہ کسی شریعت کا سکہ بھی نہیں چل سکتا، چہ جائیکہ یہ کہتے ہوئے اسلامی قانون ہی کی تنسیخ کا فتویٰ جاری کردیا جائے کہ موجودہ حالات و ضروریات کے مطابق نہیں او رپھر اسی کو بنیاد بناتے ہوئے قوانینِ وضعیہ کے نفاذ کو کامیابی کا شاخسانہ قرا ردیا جائے۔ ایسے لوگوں پر قرآن کریم کا یہ فرمان صادق آتا ہے : ﴿وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِیْ الاٰخِرَۃِ مِنَ |