’’اُنہوں نے اپنے علما اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا ربّ بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ ان کو صرف ایک ہی معبود کی پرستش کا حکم دیا گیاتھا۔‘‘ مندرجہ بالا آیت کی وضاحت کے لئے اس حدیث ِمبارکہ پر غور کیجئے کہ ’’حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جب عیسائیت کو چھوڑ کر مشرف بہ اسلام ہوئے تو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے من جملہ اور سوالات کے ایک سوال یہ بھی کیا تھا کہ اس آیت ِمبارکہ میں ہم پر اپنے علما اور درویشوں کو ربّ بنانے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے، اس کی اصلیت کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ایسا نہیں کہ جو کچھ یہ لوگ حلال کردیتے تم اس کو حلال سمجھنے لگتے اور جس چیز کو حرام قرار دیتے، تم اسے حرام کرلیتے۔ حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا تو ضرور ہے۔ فرمایا بس یہی ان کو خدا بنا لینا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی:۳۰۹۵) مذکورہ نصوص کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں کئی ایک ایسی آیات ہیں جو اپنے اس مفہوم پر دلالت کرنے میں بالکل واضح ہیں کہ شریعت اور قانون سازی کا حق صرف خالق حقیقی کے پاس ہے۔ اس کا قانون اور اسی کی شریعت ہی فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے، اس کی شریعت سے انحراف دنیا میں ہلاکت اور بربادی کا سبب تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ ایمان سے ہاتھ دھونے اور گمراہی کی گہری کھائی میں جاگرنے کے بھی مترادف ہے۔ شریعت ِاسلامیہ ابدی اور عالمگیر ہے! اسلامی قانون زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ یہ کسی مخصوص علاقے یا زمانے کے لئے مقرر نہیں کیا گیاتھا بلکہ ربّ العالمین نے شروع ہی سے اس کے متعلق واضح کردیا تھا : ﴿تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا﴾ (الفرقان:۱) ’’ بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا (ضابطہ حیات) نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے ڈرانے والا بن جائے۔‘‘ بعض غیر مسلم مؤرّخین اور مستشرقین اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شریعت ِاسلامیہ وقتی اورہنگامی حالات کے لئے وجود میں آئی تھی، لیکن بعد میں جب فتوحات کا سلسلہ وسیع ہوا تو وہ عالمی بن گئی۔ لیکن مذکورہ بالا آیت ایسے لوگوں کی واضح تردید کررہی ہے، کیونکہ یہ آیت بالاتفاق مکی ہے اور مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب اسلامی |